کوئٹہ(آن لائن)اٹھارہویں ترمیم کے بعد بلوچستان تاریخ کے سنگین ترین مالی بحران سے دوچار ، ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات پورے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا جبکہ صوبے کا سنگین ہوتا مالی بحران مختلف سوالات کو بھی جنم دینے لگادوسری جانب نئے مالیاتی ایوارڈ میں بلوچستان کے وسائل میں اضافے کی بجائے مزید کٹوتی کے مجوزہ فیصلے سے صوبائی حکومت نئی مشکل سے دوچار ہوگئی ہے ۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے رواں مالی سال کا بجٹ سابق وزیراعلی میر عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں قائم سابق مخلوط حکومت نے پیش کیا اوراس کی منظوری لی رواں مالی سال کا بجٹ صوبے کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارے کا حامل بجٹ ہے جسے پیش کرتے ہوئے سابق حکومت نے خسارے کاحجم 61ارب70کروڑ روپے ظاہرکیا تھا رواں مالی سال کے بجٹ میں غیرترقیاتی اخراجات کے لئے 2کھرب64کروڑ روپے جبکہ ترقیاتی مد میں 88ارب 30کروڑ روپے رکھے گئے تھے مگر بلوچستان اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں جب حکومت کی جانب سے ایوان کو بتایا گیا کہ پی ایس ڈی پی کی مد میں حکومت کے پاس صرف88کروڑ روپے رہ گئے ہیں تو اس پر مختلف سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں صوبائی حکومت اس صورتحال سے مشکلات میں گھر گئی ہے اور محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان کے ذرائع کے مطابق اٹھارہویں ترمیم سے قبل صوبے میں پہلے بھی ایسے حالات پیدا ہوتے رہے ہیں مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد موجودہ صورتحال پہلی بار پیدا ہوئی ہے جس میں صوبائی حکومت کو ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے کلی طورپر وفاق کی جانب دیکھنا پڑرہا ہے ابتدائی طورپر بلوچستان کے رواں مال سال کے بجٹ میںآمدن کا تخمینہ 2کھرب90لاکھ روپے سے زائد کالگایا گیا تھا جس میں سوا دو کھرب کے قریب آمدن قابل تقسیم پول سے ہونی تھی تاہم مذکورہ ذرائع کے مطابق بلوچستان حکومت نئی مشکل میں پڑ گئی ہے
کیونکہ بتایا جارہا ہے کہ نئے این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے شیئرزمیں اضافے کی بجائے کمی کرنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جس سے صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے مالی بحران سے متعلق تمام تفصیلات وفاق کے سامنے رکھ کر وفاقی حکومت سے صوبے کو خصوصی پیکج دلانے کی کوشش کرے گی محکمہ خزانہ بلوچستان کے مذکورہ ذرائع کے مطابق وفاق سے مالی پیکج کا حصول اگرچہ آسان دکھائی دیتا ہے مگر یہ کافی مشکل بھی ہے
اور اس پر باقی صوبے اعتراض بھی کرسکتے ہیں دوسری جانب بلوچستان حکومت کے باوثوق ذرائع نے آن لائن کو بتایا کہ صوبائی حکومت اخراجات جاریہ میں کمی نہیں کرسکی اور 2013 سے اب تک مسلسل ہر مالی سال کے بجٹ میں شامل خسارہ بجائے کم ہونے کے بڑھتا چلا جارہا ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے اجرا کے بعد نئی بننے والی حکومت میں 2013-14 کا ڈاکٹر عبدالمالک بلو چ کا پیش کردہ بجٹ8ارب کے قریب خسارے کا حامل تھاسابق دورحکومت کے پانچ سالوں میں بجٹ خسارہ بڑھتا بڑھتا 52ارب سے زائدکا ہوگیا
اور اب رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی ابتدائی طو رپر 61ارب70کروڑ روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا جس میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے ۔ واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں صوبے کے مالی بحران پر مسلسل کئی گھنٹوں تک بحث بھی ہوتی رہی جس کے بعد ایوان نے متفقہ طورپر وفاق سے مطالبہ کیا کہ اگلے این ایف سی ایوارڈ کے اجرا میں بلوچستان کے وسیع و عریض رقبے اور دیگر حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ میں رقبہ ، آبادی ، غربت و پسماندگی ، قدرتی وسائل ، ساحلی ترقی اور ایس ڈی جیز کے حصول کو وسائل کی تقسیم کے فارمولے کے طور پر تسلیم کیا جائے۔