اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی میں سعودی سفارتخانے میں قتل کی تصدیق اور سعودی عرب کی جانب سے اعتراف کے بعد وضاحت بھی پیش کی گئی ہے جسے تاہم قبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا ۔ روزنامہ جنگ میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے اس اعتراف کے بعد کے جمال خاشقجی کو استبول کے قونصل خانے میں
قتل کیا گیا، تاریخ کا دھارا ایک بار پھر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ تیل سے مالا مال اس بادشاہت کے بہت سے دوست اور دشمن ریاض کی وضاحت پر شکوک و شبہات ظاہر کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے موقف پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے، آسٹریلیا نے ریاض سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہےجبکہ برطانیہ، ہالینڈ اور فرانس کی طرف سے بھی بائیکاٹ جاری ہے۔ ترکی کے تفتیش کاروں کو یقین ہے کہ ان کے پاس ایسی آڈیو اور وڈیو موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر سعودی ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے قتل کیا۔ جرمن چانسلر مرکل نے سعودی وضاحت کو ناکافی قراردیا ہے ، فرانسیسی وزیرخارجہ ڈرائن نے کہا ہے کہ بہت سے سوالات کے جوابات ملنا باقی ہیں جبکہ برطانوی دفتر خارجہ نے اسے ایک دہشت ناک عمل قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اگرچہ سعودی عرب نے انٹیلی جنس کے نائب سربراہ احمد العسیری اور ایک سینئر رہنما سعود القحتانی کو عہدے سے برطرف کرنے کے علاوہ 18مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا ہے ، جمال خاشقجی کے قتل کے قومی اور بین الاقوامی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیںجیسا کہ تاریخ کے بعض واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض واقعات نے نہ صرف ایک ملک بلکہ
دنیا کو بھی ہلاکر رکھ دیا۔ ذیل میں کچھ ایسے ہی واقعات نقل کئے جاتے ہیں۔ 1865میں امریکی صدر ابراہام لنکن کو ایک اداکار نے قتل کیا اور یہ ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ ملک میں خانہ جنگی حال ہی میں ختم ہوئی تھی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ لنکن کے جانشین انڈریو جانسن اپنا کام جاری رکھنے کی اہلیت نہ رکھتے تھے، لہذا امریکا میں سیاسی افراتفری دیکھنے میں آئی
جبکہ جانسن غلاموں کی آزادی سمیت مختلف امور پر اپنے مخالفین سے الجھے رہے۔ انہوں نے جنوبی کی تعمیر نو اور کالوں کو شہری حقوق دینے سے متعلق ریپبلکن منصوبے کی مخالفت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1868میں امریکی ایوان نمائندگان نے صدر جانسن کے مواخذے کی تحریک منظور کرلی۔ 1881میں روس کے شہنشاہ الیگزینڈردوم قتل کی سازش کا نشانہ بنے ،
بائیں بازو کے اراکین نے ان پر بموں سے حملہ کیا اور ان کے قتل کے نتیجے میں شہری آزادی زبردست طریقے سے کچل دی گئی۔ 1881میں ہی امریکی صدر جیمز گارفیلڈجنہیں اقتدار میں آئے ہوئے محض چار ماہ ہی ہوئے تھے، ایک ٹرین اسٹیشن پر دو مرتبہ گولی ماری گئی، وہ انفیکشن اور اندرونی خون کے رساو کے باعث چل بسے۔ انکی موت کے نتیجے میں امریکی آئین میں
صدارتی جانشین کے حوالے سے تبدیلی دیکھنے کو ملی جبکہ سول سروسز میں بھی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ انکی موت سے امریکا ور برطانیہ میں تعلق کی مضبوطی بھی دیکھنے کو ملی۔ 1901میں ایک اور امریکی صدر ولیم مک کینلے کی ہلاکت ہوئی جس کے نتیجے میں انارکسٹ پر رد عمل سامنے آیا اور صدر کی حفاظت کیلئے سیکرٹ سروس متعارف کرائی گئی۔ جون 1914میں
آسٹریا کے شہزادے کے قتل کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی جس سے یورپ خون میں ڈوب گیا۔ اس شہزادے فرانز فرڈیننڈ کو اس وقت گولیاں ماری گئی جب وہ ا پنے اہلیہ کے ساتھ گاڑی میں سوار تھا۔ 1951میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل نے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کردیا جبکہ سیاست میں فوج کا اثر کئی گنا بڑھ گیا۔ کم سے کم چھ وزرا اعظم
جن میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون شامل ہیں، کو 1951سے 1958کے درمیان جبرا برطرف کیا گیا۔ ان میں سے فیروز خان کے علاوہ پانچ وزرا اعظم کو گورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کیا۔ 2017میں افشا ہونیوالے امریکی محکمہ خارجہ کی دستاویزات کے مطابق لیاقت علی خان کو اس وجہ
سے قتل کیا گیا کہ انہوں نے امریکی کمپنیوں کے لئے پڑوسی ملک ایران میں ٹھیکے دلوانے سے انکار کردیا تھا۔ دستاویز کے مطابق لیاقت علی خان نے امریکا سے وہ فوجی اڈے بھی خالی کرنے کو کہا تھا جو سویت یونین کے خلاف استعمال کئے جارہے تھے اور جس پر اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔ امریکا کے 35ویں صدر جان ایف کینیڈی
کو 1963میں قتل کیا گیا اور ان کے قاتل کو ہاروے اوزویلڈ کے نام سے شناخت کیا گیا تاہم انکی بے وقت موت سے متعلق سازشی نظریات تاحال باقی ہیں۔ سی این این کے مطابق سرد جنگ کے دوران وہ پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے سویت یونین کے ساتھ فوجی طریقے کی بجائے پر امن طریقے سے نمٹنے کی بات کی تھی۔ وہ چین روس اختلاف کو سمجھنے والے بھی پہلے صدر تھے
جبکہ ملک کے اندر انہوں نے بجٹ خسارے کے باوجود ٹیکس میں کٹوتی کی تجویز پیش کی تھی۔ انکے حامیوں کا کہنا ہے کہ 1964کے انتخابات جیتنے کے بعد وہ امریکی فوج کو ویتنام سے نکال لیتے۔ 1967میں بولیویا میں گوریلا لیڈر چی گویرا کے سی آئی اے کے احکامات پر قتل نے انہیں کئی ممالک میں ہیرو بنادیا۔ ارجنٹینا میں پیدا ہونے والے گوویرا 20ویں صدی کی ایک بہت ہی بااثر انقلابی شخصیت تھے۔کیوبا کے انقلاب میں انہیں بطور ہیرو غریبوں کا محافظ سمجھا جاتا ہے اور کیوبا میں انہیں قومی ہیرو کی حیثیت حاصل ہے۔