لیگی رہنماؤں سمیت دیگر بااثر شخصیات کو غیر قانونی طور پر تاحیات الاٹمنٹ کرکے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے کا انکشاف،افسوسناک تفصیلات منظر عام پر

18  اکتوبر‬‮  2018

اسلام آباد ( آن لائن) سابقہ دور حکومت میں وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن افسران کی مبینہ ملی بھگت کے باعث اسلام آباد کے تین بڑے سرکاری بازار وں میں سینکڑوں اسٹالز بااثر شخصیات کو غیر قانونی طورپر الاٹمنٹ کا انکشاف ہوا ہے ، سی ڈی اے حکام نے سالانہ الاٹمنٹ کے قوانین پر عمل د ر آمد کرنے کے بجائے سابق لیگی ایم این اے طارق فصل چوہدری سمیت دیگر بااثر شخصیات کو غیر قانونی طور پر تاحیات الاٹ کر دیئے جس سے ادارے کو کروڑوں روپے

کا نقصان ہوا ہے ۔ایم سی آئی کے ذرائع کے مطابق سی ڈی اے بورڈ نے 1985میں سرکاری ہفتہ وار بازارایچ نائن ،بھارہ کہو جی ٹین اور جی سکس میں اسٹالز کی الاٹمنٹ کے قوانین جاری کیے تھے جس کے تحت الاٹمنٹ صرف سالانہ بنیادوں پر کی جائے گی جو ہر 31دسمبر کو ختم اور 1جنوری کو الاٹمنٹ کی تجدید کی جائے گی اور دکانوں کی الاٹمنٹ میں سبزیان اگانے والے زمین داروں،پولٹری فارمز مالکان ،سرکاری ملازمین ،تاجر اور بیوا خواتین کودیگر ترجیح دی جائے گی تاہم ان قوانین پر عمل در آمد کرنے کے بجائے متعلقہ ادارے نے قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے با اثر شخصیات کو اسٹالز کی تاحیات الاٹمنٹ کر دی ہے ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ دور حکومت میں سابق وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو بھی غیر قانونی طور پرکئی سرکاری بازاروں کے اسٹالز الاٹ کئے گئے تھے جو تاحال ان کے قبضہ میں ہیں ذرائع نے مزید بتایا کہ سابق وزیر کیڈ نے تین اسٹالز ایچ نائن بازار میں اپنے نام کروائے جبکہ تین مزید اسٹالز جی سکس بازار میں ان کے نام پر الاٹ ہیں اس معاملے پر جب سابق وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مکمل طور پر انکار کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے نے ان اسٹالز کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی ہے ذرائع نے مزید بتایا کہ کئی اراکین پارلیمنٹ نے بھی غیر قانونی طور پر سٹالز اپنے نام الاٹ کروا کر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں

اسی طرح اسلام آباد کے کئی بااثر صحافیوں نے بھی اپنے نام اسٹال الاٹ کر رکھے ہیں ذرائع کے مطابق اسٹالز کے غیر قانونی مالکان ماہانہ سی ڈی اے کو صرف 2ہزار روپے جمع کرواتے ہیں جس کی وجہ سے سی ڈی اے اور ایم سی آئی کو ماہانہ کروڑوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ بازاروں کی صفائی کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں اسٹالز سے اکھٹا ہونے والے معاوضے سے ذیادہ ہے ،جبکہ ایم سی آئی ذرائع نے بتایا ہے کہ ادارے کی جانب سے ماضی میں ایچ نائن بازار کا سروے کیا گیا تھا

جس میں معلوم ہوا تھا کہ اتوار بازار میں اسٹال الاٹ کرنے والوں میں 90فیصد افراد اسٹالز خود استعمال نہیں کرتے بلکہ آگے کرایہ پر دے دیتے ہیں اس سلسلے میں جب جناح نے ایچ نائن بازار اور جی سکس بازار کا سروے کیا تو اسٹال پربیٹھنے والوں کا کہناتھا کہ وہ 6000سے 15000روپے ماہانہ کرایا ادا کرتے ہیں اس حوالے سے جب سی ڈی اے کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایاکہ یہ تمام الاٹمنٹ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ہوئی تھی اور یہ تمام بازار اس وقت ایم سی آئی کی ملکیت میں ہیں اور ان بازاروں کا تمام ریکارڈ بھی ایم سی آئی کے پاس ہے انہوں نے کہاکہ بازاروں کی الاٹمنٹ میں سی ڈی اے کسی طور بھی ملوث نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ذیشان کمبوہ



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…