پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

لا پتہ افراد کے بارے میں حساس اداروں سے حلف نامے طلب، چیف جسٹس ثاقب نثار نے بڑا قدم اُٹھالیا

datetime 12  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ انتظامیہ اپنا کام کرے تاکہ ہمیں قدم نہ اٹھانا پڑے ،اگر عملدرآمد نہیں کرنا تو کیا بنیادی حقوق کی شقیں صرف دکھاوے کیلئے آئین میں ڈالی گئی ہیں ، ہمارے معاشرے میں جھوٹ سرایت کرچکا ہے اورجس نظام کا ڈھانچہ جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہو وہ کیسے ڈلیور کرے گا،انصاف میں تاخیر ناسور بن چکا ہے،موجودہ قوانین کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا،

لا پتہ افراد کے بارے میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی، آئی جیز، آئی بی کے سربراہ ، ڈی جیز رینجرز کو ٹاسک دیا ہے اور ان سے حلف نامے بھی مانگے ہیں ،میں قوم کومایوس نہیں کرنا چاہتا اور بہت جلد اچھاوقت آئے گا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں ’’ قانون میں نئے افق ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہو رہائیکورٹ جسٹس محمد یاور علی سمیت دیگر ججز صاحبان ، پاکستان بار ، سپریم کورٹ بار،لاہور ہائیکورٹ باراور لاہور بار کے عہدیداران سمیت وکلاء کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آزاد ملک نصیب والوں کو ملتا ہے اور جن کا اپنا ملک اور قوم نہیں ہوتی وہ بد نصیب ہوتے ہیں ۔ پاکستان ہمیں خیرات میں یا تحفے میں نہیں ملا اس کے پیچھے ایک تحریک ہے اور اس میں کئی قربانیاں شامل ہیں کئی لاشے اٹھائے گئے ، کئی خاندانوں میں سے صرف ایک ، ایک فرد پاکستان پہنچ سکا ،ہمارے گھر میں ایک خاتون کنیز بی بی رہتی تھیں اور ہم انہیں سگی پھوپھی سمجھتے تھے ۔ لیکن وہ ہمارے دادا مرحوم کے ایک دوست کی بیٹی تھیں جب پاکستان بن رہا تھا تووہ اپنے خاندان میں سے بچ جانے والی واحد خاتون تھیں اور جب تک ان کی شادی نہیں ہوئی وہ ہمارے پاس رہیں ، اس ملک کی قدر و قیمت ان سے پوچھی جائے ۔ آج یہ ملک نہ ہوتا تو میں کوئی چھوٹا موٹا وکیل ہوتا کیونکہ اس وقت جو تعلیم کامعیارتھا اس پر قبضہ تھا اور مسلمان بہت کم تعلیم یافتہ تھے ۔

انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک رہا ہوں اور پھر آپ سے کہتا ہوں کہ غورکیجیے جو ملک اتنی قربانیوں سے حاصل کیا گیا کیا ہم اس کی قدر کر رہے ہیں ؟۔ میں اپنا کہتا ہوں کہ ایسے حقوق جو میری ذمہ داریوں میں شامل تھے میں وہ ادا نہیں کرپایا ۔میں انہماک اور ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میں اس بار کا سب سے پرانا اورقدیم ممبر ہوں ۔ آپ کہتے ہوں گے کہ شو مار گیا لیکن میں جب 7سال کی عمر کا تھا تب سے یہاں آرہا ہوں،

آپ میں سے کسی کو بابا غنی یاد ہوگا جو مجھے سائیکل پر بٹھا کر لاتے تھے اور بنچ پر بٹھا دیتے تھے ،میں نے اس بار کو بڑھتے ہوئے اور پنپنے ہوتے دیکھاہے ۔ میں نے میاں محمود قصوری ، ایس ایم ظفر ، اعجاز بٹالوی اور بہت سے محترم پروفیشنل وکلاء ہیں جن کا احترام ہے انہیں دلائل دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ وہ لوگ عدالتوں کو عزت اور احترام دیتے تھے ۔ عدالت کا معاشرے میں ایک مقام اور عزت ہے اس کے مقام کو پہچانیے اس کا احترام کیجیے اوراسے عزت دیجیے ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بابا رحمتے کی بات کی تھی تو اسے مذاق میں لیا گیا مجھے پوچھا گیا کہ اس کا کردار کیا ہے ۔ اس بابے کا معاشرے میں بڑے اور منصف کا کردار ہے ۔ جس کے پاس دو افراد آتے ہیں اور اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں او ربابا رحمتے ایمانداراور دو ر اندیشی سے فیصلہ کر دیتا ہے اور لوگ سر جھکائے ہوئے فیصلے کو مان کر واپس چلے جاتے ہیں اور اس فیصلے کو عزت و تکریم دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بینچ اور بار ایک دوسرے کے لئے لازمی جزو ہیں اور ایک دوسر ے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔

اعجاز بٹالوی اور ان جیسے دوسرے سینئر وکلاء ججز کا احترام کرتے تھے ، عدالتوں میں جھوٹ نہیں بولتے تھے بلکہ اپنے کلائنٹ کے موقف کو سچ کے ذریعے سامنے لاتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ جس معاشرے میں جھوٹ سرائیت کر گیا ہو ، جس کی ڈھانچہ ہی بد دیانتی پر ہو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک ڈلیور کر سکے گا کیا اس میں بہتری ہو سکے گی؟ ۔ اس ماں ، دھرتی نے ہمیں سب کچھ دیا ہے جس کی وجہ سے آج ہم محترم وکیل اور جج بن گئے ہیں ہم نے اسے کچھ لوٹانا بھی ہے ۔ ایک جج کو پورے انصاف کی کوشش کرنی چاہیے

اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ۔ غالباً بلکہ یقیناًایک جج ریاستی اداروں میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا عہدہ ہے ۔ ایک جج روزانہ پچاس سے پچپن ہزار میں پڑتا ہے لیکن کیا ہم اس کے عوض اپنی ذمہ داری اور کام پورا کر کے جاتے ہیں ۔ میں اپنے ہاؤس کو ان آڈر نہیں کر سکا ۔ ایک سپیشل ٹربیونل کے جج آئے تو میں نے ان پوچھاآپ نے اسے ڈسپوز آف کیو ں نہیں کیا جس پر انہوں نے کہا کہ میرے پاس بہت رش تھا میں نے پوچھا ایک ماہ میں کتنے کیسز ڈسپوز آف کئے جس پر انہوں نے 22تعدادبتائی اتنے تو شاید میں روزانہ ڈسپوز آف کرتا ہو ں ۔

جب ایسا ہوگا تو پھر تاخیر کیسے نہیں ہو گی عوام کا اعتبار کم کیوں نہیں ہوگا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ کوئی معاشرہ کفر کے نظام پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن بے انصافی والا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ ہم مقدمات کی شنوائی نہیں کرتے ،کیا یہ بے انصافی نہیں ۔ اگلی تاریخیں دے کر کیسز کو التواء میں ڈال دیتے ہیں کیا ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص مکان کا مالک ہے لیکن اسے تاریخیں ڈلوا ڈلوا کر کئی سال نکال دیتے ہیں کیا یہ ظلم او رنا انصافی نہیں ہے کیا یہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننا نہیں،

انصاف میں تاخیر ایک ناسور بن چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کاکوئی عزیز مر جائے تو وہ چالیسویں کے بعد بھول جاتا ہے صبر کر لیتا ہے لیکن ایک شخص جو گھر آکر بتاتا ہے کہ آج پھر تاریخ پڑ گئی ہے تو وہ اس کے لئے موت کا دن ہوتا ہے ، مالک مکان ہے اور اسے اپنے مکان کا 15سال تک قبضہ نہیں ملتا۔ چیف جسٹس نے ایک واقعہ بتایا کہ ایک خاتون نے دوسری شادی کر لی اور اس کے دوسرے شوہر کے دو بچے بھی تھے ۔ وہ شخص اپنے بچوں سمیت خاتون کی ملکیتی گھر میں رہنا شروع ہو گیا لیکن جب اس کا انتقال ہو گیا تو بچوں نے اس خاتون کو ہی گھر سے نکال دیا

اور اس کیس کا ہم نے اکسٹھ سال بعد پندرہ روز میں فیصلہ کیا ۔ چار بہنیں اپنا مقدمہ لے کر آئیں کہ بھائی وراثتی جائیداد میں حصہ نہیں دے رہے ۔عدالت میں بلانے پر انہوں نے کہا کہ ہم دینے کے لئے تیار ہیں لیکن ان بہنوں نے بتایا کہ گلبرگ میں چھ کنال کا ایک گھر بھی ہے جس پر بھائیوں نے کہا کہ وہ والد صاحب ہمیں دے کر گئے ہیں جب میں نے ثبوت مانگا تو ایک سادہ صفحے پرلکھی ہوئی تحریر دکھا دی میں نے اپنے ساتھ بیٹھے جوڈیشل افسر کو دی اور کہا کہ اسے آگ لگا دیں میں نے پوچھا ثبوت کہاں ہے انہوں نے کہا کہ یہی ثبوت تھا جسے آپ نے آگ لگا دی ہے ۔ یہاں سسٹم نہیں ہے ،

ہمیں اپنے قوانین کو اپ ڈیٹ کرنا پڑے گا ، نظام کو اپ ڈیٹ کرنا پڑے گا۔ ہمیں اپنے سسٹم سے کوتاہیوں کو نکالنا پڑے گا اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوات میں صوفی محمد کا جو انقلاب آیا کیا انہوں نے وہاں معاشرے کی بہتری کے لئے کوئی کام کیا ، ہسپتال بنوائے ، کیاسکول بنوائے بلکہ وہاں تو بچیوں کے سکولوں کو جلایا گیا صرف ایک بات کی گئی کہ آؤ ہم تم کوجلدی انصاف مہیا کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے ،جدید اور ماڈرن سوسائٹی میں ایسا نہیں چل سکتا ہم پرانے قوانین کے ساتھ نہیں چل سکتے ، کرپشن بھی ایک بڑا ناسور ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں نئے قوانین کا اطلاق کرنا ہوگا ،

ہم آج بھی 19ویں صدی کے قانون شہادت پر گزار ا کرنے پر مجبور ہیں ۔ ایسے ججز بھی ہیں جو جوڈیشل اکیڈمی سے آتے ہیں انہیں سول لاء کے بنیادی اصول ہی پتہ نہیں ہوتے ۔ انہیں پوچھیں کوئی لائبریری بنائی ہے ، بنچ بک بنائی ہے کچھ بھی نہیں کیا ہوتا ۔ دونوں مل کر استحصال کر رہے ہیں ہمیں کھل کر اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا تبھی ہم پنی نسل کو ایک منصف معاشرہ اور انصاف پسند معاشرہ دے سکتے ہیں اور وقت بہت کم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئین نے جو بنیادی حقوق کا ذکر کیا ہے کیا کبھی کسی نے انہیں سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔  یہ کائنات زندگی اور انسانیت کی وجہ سے اہم ہے ۔ایک ڈاکٹر بار بار درخواست ڈال رہا تھا اور اس کا بیٹا جو ڈاکٹر ہی تھا وہ لا پتہ تھا ۔

اس کے لئے اعلیٰ سطحی میٹنگز کیں اور بتایا کہ ہمارے پاس نہیں ہے ،میں آج تک اس باپ کو اس کے بچے کا جواب نہیں دے پایا کیا یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے ، وہ اوور سیز پاکستانی جب ہم پر مشکل آتی ہے تو ہم جھولی پھیلا کر ان کے پاس مدد کیلئے چلے جاتے ہیں ان کی جائیدادوں پر قبضے ہو جاتے ہیں اور کئی سالوں تک مقدمے لڑنے کے بعد وہ کسی سے پیسہ مانگ کر واپس چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس نظام کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا ، اس ملک میں یہ ہو رہا ہے ۔ کیا ہسپتال میں ایمر جنسی کی سہولیات اور ادویات کی فراہمی بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا ۔ ایک ہسپتال کا یونٹ جسے عدلیہ کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ روپے دئیے جارہے ہیں اسے ہسپتال کو چلانے کے لئے فنڈز نہیں ہیں ،

نرسز اپنے پاس سے ادویات کا بندوبست کرتی ہیں،وہاں ڈرپ نہیں ہے ، سرکاری بجٹ یا تو نا کافی ہے یا تو خرد برد ہو جاتا ہے ۔ ۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں گیا جہاں ایک بچہ قومے کی حالت میں تھا اور ماں نے بتایا کہ ہسپتال کا بل ایک کروڑ روپے پہنچ گیا ہے اور میں یہ بل ادا نہیں کر سکتی ۔ سپریم کورٹ نے ایسے معاملات میں ایکشن لیا ہے لیکن میں حل نہیں ڈھونڈ پایا ۔ کیا صاف پانی کی فراہمی بنیادی حقوق نہیں ، کمپنیاں جو پانی بیچ رہی ہے یہ ملک کوایک پیسے کا ایک چوتھائی بھی نہیں دے رہی اور انتہائی مہنگے داموں بیچ رہی ہیں ،میں نے ان کا تجزیہ کرایا ہے ان میں وہ اجزاء ہی موجود نہیں جو ہونے چاہئیں۔ ۔ بچوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہو رہی اور بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں،

کیا یہ سرکار کا کام نہیں ۔کیا آئین میں اس کا درج نہیں ہے کہ ایک کتاب ، ایک بستہ اور ایک یونیفارم ہوگا ۔ مٹھی میں جو بچے مر رہے ہیں میں انہیں شہید کہوں گا،تھر میں قحط کی صورتحال ہے کیا یہاں انسانی حقوق فعال نہیں کرتے ۔ کراچی میں ایک شخص کی کینسر کی وجہ سے گال لٹک رہی ہے اورمعذور ہے لیکن اسے ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ ایک شخص جسے بواسیر ہے اسے بہترین علاج معالجے کیلئے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ۔ ہم نے آئین میں درج حقوق نہیں دینے تو کیا صرف دکھاوے کے لئے شامل کر رکھا ہے ۔ یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے بلکہ جب ان پر عملدرآمد نہ ہو اور ڈیوٹیز پوری نہ ہوں تو عدلیہ اسے دیکھے ۔ میں نے سول افسران سے خطاب کیا او رانہیں کہا کہ آپ انصاف کریں عدالتوں پر بوجھ کم ہو جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور اماں ہوا کو بے دخل کیا تو اللہ تعالیٰ کو کیا نہیں پتہ تھا کہ انہوں نے کیا قصور کیا ہے لیکن اس کے باوجود پوچھا کہ اپنی صفائی میں کچھ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ایگزیکٹو آفیسر سننے نہیں اور فیصلہ کر دیتے ہیں ۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں عدلیہ مداخلت نہیں کرے گی ۔ہم تو خلاء پر کرنے کے لئے آئے ہیں ۔ یہاں سکولوں اور ہسپتالوں کو مدر پدر آزادی دیدی گئی ہے اور انہیں ریگولیٹ کرنے والا کوئی نہیں ۔ میں یہ کیسز سن رہا ہوں اس پر زیادہ بات نہیں کر سکتا لیکن یہاں میڈیکل کالجزچونتیس ،چونیتس لاکھ روپے بچوں کی فیس لی گئی ہے ،

ہم نے 720ملین روپے ریکور کرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی بھی سوال کرے میں اسے جواب دوں گا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے جو حکمران ، ایگزیکٹو ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق ، استقامت دے کہ وہ اپنے کام کریں اور انصاف کریں ۔ چیف جسٹس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تاریخ میں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی ، چاروں صوبوں کے آئی جیز ، ڈی جیز رینجرز ، آئی بی کے سربراہ کو بلا کر ٹاسک دیا ہے کہ لا پتہ افراد کے بارے میں تفصیل چاہیے کہ یہ کہاں چلے گئے اور ان سے حلف نامے لئے ہیں،اگر وہ غلط کہیں گے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ میں اس کے لئے ایک خصوصی بینچ مختص کر رہا ہوں ، یہ ایکسرا جوڈیشل کلنگ ہے ۔ ایف آئی آر لانچ کرائی جائے ہم جوڈیشل انکوائری کا حکم دیں گے ۔

اس ملک میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے ، وہ وقت گیا ، پیچھے بیٹھ کر ملک کو چلانے والوں کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ، بحریہ ٹاؤن ، اومنی بس گروپ کون ہے ؟۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے ادارے کی کریڈیبلٹی اسٹیبلش نہ کی تو تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی ، جب ہمارے ادارے کی کریڈیبلٹی ہو گی تو لوگ انصاف کو قبول کرنا شروع کر دیں گے ۔ آج جو عدالتوں پر بوجھ ہے وہ ایک دن کا نہیں ،ہمیں اس کے لئے میکنزم بنانا ہوگا ۔ اے ڈی آر سسٹم ہے ، یہ سول معاملات کیلئے ہے لیکن ہمیں کریمینل معاملات کیلئے اور نظام لانا ہوگا ۔ ہمیں قانون میں اصلاحات کرنا ہوں گی اور اس کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے ۔ میں نے امریکہ کا دور ہ کر کے اے ڈی آر سسٹم کو سٹڈی کیا ہے،

وہاں بھی بار کی مزاحمت تھی کہ روزی رزق پر نقصان آئے گا لیکن اب وہاں وکلاء اس سسٹم میں شامل ہو گئے ہیں ۔ اے ڈی آر سسٹم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ایک وکیل شروع سے ہی اس کے بارے میںآگاہ ہو اور اس کی طرف آ سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ دنیا کو جن مشکلا ت کا سامنا تھا انہوں نے اسے حل کیا ہے اور ماڈلز بنا دئیے ہیں ہمیں اپنے ماحول کے مطابق اس میں رد و بدل کر کے اسے اپنانا چاہیے۔ انتظامیہ اپنا کام کرے اور ہمیں قدم نہ اٹھانا پڑے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں دو دفعہ چین گیا ہوں وہاں سارا نظام ہی کمپیوٹر ائزڈ ہے وہاں ہر آدمی کا ڈیٹا ور جائیداد کمپیوٹرریکارڈ میں ہے ۔ ہمیں بھی نئے ٹولز او رڈیوائسز کو اپنے سسٹم میں شامل کرنا ہوگا اور ہمیں اسے استعمال کرنا پڑے گا ،یہ کسی نے آکر نہیں کرنا ہم نے خود کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم کو مایوس نہیں کرنا چاہتا او رنہ کر رہا ہوں ہم ٹیک آف کریں گے اور اس معاشرے میں اعلی انصاف میسر آئے گا ۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…