اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ناصر درانی کے استعفیٰ کی وجہ سامنے آگئی، تحریک انصاف کی حکومت سے اختلافات استعفے کی وجہ بنے، ناصر درانی پولیس افسران کے تبادلے کیلئے وزیراعلیٰ کے کردار کو ختم کرنا چاہتے تھے جبکہ عثمان بزدار اور حکومتی ایم پی اے اور ایم این اے ایسا نہیں چاہتے تھے ، وہ پولیس کو مکمل آزادی اور سیاسی اثرورسوخ سے آزاد نہیں دیکھنا چاہتے تھے،
روزنامہ جنگ کی رپورٹ کی سنسنی خیز انکشافات ۔ تفصیلات کے مطابق روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب پولیس اصلاحات کمیشن سربراہ ناصر درانی نے تحریک انصاف کی حکومت سے اختلافات کے باعث استعفیٰ دیا ہے۔ فیضان بنگش کی شائع ہونیوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب پولیس اصلاحات کمیشن سربراہ کے استعفے کی وجہ تحریک انصاف حکومت سے اختلافات تھی ،پی ٹی آئی وزرا سمجھتے ہیں کہ کے پی طرز کی پولیس اصلاحات پنجاب میں نہیں ہوسکتیں۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف حکومت پولیس پر روایتی سیاسی اثر و رسوخ کے خاتمے کیلئے غیر آمادہ دکھائی دیتی ہے اور یہ پنجاب پولیس ریفارمز کمیشن سربراہ ناصر درانی کے اچانک استعفے کے بعد واضح ہوگیا ہے ۔ذرائع کاکہنا ہے کہ اگرچہ درانی نے اپنے استعفے کیلئے طبی وجہ بیان کی ہے لیکن ان کے استعفےکے پیچھے ان کا تجویز کردہ پولیس آرڈر تحریک انصاف حکومت سے اختلافات کی وجہ بنا ہے ۔ناصر درانی کی سربراہی میں پولیس ریفارمز کمیٹی ایک منصوبے پر کام کررہی تھی کہ جس کے تحت ایک وزیرا علی ایک پولیس افسر کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کیلئے اپنے عہدے کا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکتا ۔جاری قانون کے تحت گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے افسران کے ٹرانسفر کیلئے وزیر اعلی منظوری دیتا ہے ،
تاہم درانی کی سربراہی میں کمیٹی وزیرا علی کے کردار کا خاتمہ چاہتی تھی اور کسی بھی پولیس افسر کے ٹرانسفر کیلئے مکمل اختیارات چاہتی تھی ۔یہ وزیر اعلی کے اختیارات ختم کرنے کے مترادف تھا اور یہی درانی اور بزدار حکومت کے درمیان رسہ کشی کے پیچھے وجہ بنی ۔مزید کہاگیا کہ اس سے متعلق سمری تیار کرلی گئی تھی اور پنجاب سے کچھ وزرا نے اس پر دستخط بھی کردیے تھے ۔
دوسری جانب یہ آئیڈیا پنجاب کابینہ اور تحریک انصاف کے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پسند نہیں آیا جو کہ لاہور میں ہونےو الے کابینہ اجلاس میں تھے ،انہوں نے کمیٹی کے کام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کاکہنا ہے کہ وزیرا عظم عمران خان کے حالیہ لاہور دورے کے دوران انہوں نے پنجاب کابینہ اجلاس کی صدارت کی ۔کچھ وزرا نے پولیس کی
جانب سے عدم تعاون پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ان کے مطابق پارٹی کے منتخب نمائندوں کی درخواستوں کو بھی نظر انداز کیا جارہا تھا۔نتیجتاً پنجاب سے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اپنے متعلقہ حلقوں میں شہریوں کی جانب سے تنقید کانشانہ بنایا جارہا ہے ۔اس کی مقررہ 14 اکتوبر کو ضمنی انتخابات میں دھچکا لگ سکتا ہے ۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ناصر درانی کا استعفے 14 اکتوبر کو
ضمنی انتخابات سے چند دن پہلے سامنے آیا ہے ۔جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف حکومت کا آئی طاہر خان کے تبادلے کے فیصلے کو معطل کیاگیاہے ۔ذرائع کاکہنا ہے کہ اجلاس کے شرکا نے بتایا کہ کے پی جیسا ماڈل پنجاب میں نہیں لایا جاسکتا کیونکہ اس کے مختلف محرکات اور ووٹرز اور لوگوں کا رویہ بھی مختلف ہے ۔ذرائع نے کہا کہ شرکا کو اپنی قیادت سے
اس موضوع پر بات کرنے کے بعد مثبت اشارے ملے ۔پنجاب سے عمران خان کے منتخب کردہ کچھ ٹیم ارکان نے بھی کچھ پولیس افسران اور چند ڈی پی اوز سے متعلق شکایات کیں۔بہاولپور سے ایک ایم پی اے کے حامیوں کی بات کی گئی اور ایک واقعے میں تحریک انصاف کے دو ایم پی ایز کو جنوبی پنجاب میں ڈی پی او کی شکایت کی گئی اور یہ واقعات وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس
میں لائے گئے ۔دی نیوز کی جانب سے ناصر درانی کے استعفے اور آئی جی پولیس طاہر خان کے تبادلے سے متعلق پنجاب کے وزیر اطلا عا ت فیاض الحسن چوہان کے رابطہ کرنے پر انہوں نے کسی بھی سیاسی وجہ کومستردکر دیا ۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری سے جب پوچھا گیا کہ تحریک انصاف حکومت اپنی قبل از انتخابات پولیس پر سیاسی اثر ورسوخ کا وعدہ پورا کرے گی
تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم وہ اصلاحات لائیں گے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ ناصر درانی کے استعفے کے پیچھے حقائق ہیں کہ تحریک انصاف کے منتخب اراکین پنجاب پولیس میں اصلاحات نہیں چاہتے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ناصر درانی نے خود بتایا ہے کہ ان کے استعفے کی وجہ ان کی صحت ہے ‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا تحریک انصاف محکمہ پولیس میں اصلاحات لائے گی ،انہو ں نے جواب دیا کہ ھکومت پولیس میں اصلاحات لائے گی اور اس نے آئی جی پنجاب کو گریڈ 22 کے افسر سے ٹرانسفر کرتے ہوئے ایک بات پوری کردی ہے ۔