اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی انصار عباسی اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ
نیب کی طرف سے شہباز شریف کی متنازع گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کو کسی دوسرے سے شکایت کا کوئی حق نہیں۔ تحریک انصاف تو مزے لے گی، تحریک انصاف کی حکومت سے شکایت کیسی۔ ن لیگ کے رہنمائوں نے اگر کسی کو کوسنا ہے تو اپنے آپ کو کوسیں۔
گزشتہ پانچ سال اپنی حکومت کے دوران نیب کے ادارے میں اصلاحات کیوں نہ کیں۔ نیب تو بنایا ہی سیاستدانوں اور سیاست کو کنٹرول کرنے کے لیے کیاگیا تھا۔ مشرف دور میں اس کا سب سے بڑا شکار بھی ن لیگ اور پی پی پی ہی رہیں۔ جب دونوں جماعتیں حکومت سے باہر تھیں تو اُنہوں نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے اور اس بات کا عہد کیا کہ نیب کو ختم کر کے ایک ایسا احتساب کمیشن بنایا جائے گا جو سیاسی انتقام اور سیاسی پارٹیوں کو بنانے، بگاڑنے کے بجائے میرٹ پر ،نہ کہ کسی کے اشارہ پر، کرپشن کے خاتمہ کی ذمہ داری ادا کرے گا۔ گزشتہ دس سال کے دوران پہلے پی پی پی نے حکومت کی اور بعد ازاں ن لیگ نے وفاق میں حکومت بنائی لیکن کسی ایک نے بھی نیب میں اصلاحات لانے یا اسے بند کر کے وعدہ کے مطابق کوئی دوسرا آزاد اور خود مختار احتساب کمیشن بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔ اب میاں نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی، شہباز شریف کو ایک ایسے کرپشن کیس میں پکڑا جہاں ابھی یہ تعین ہی نہیں ہوا کہ کرپشن ہوئی کہاں کہ نہ حکومت کا پیسہ لگا اور نہ ہی کسی کو حکومتی زمین دی گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک کمپنی کا کنٹریکٹ غیر قانونی طور پر کینسل کر کے ایک دوسری من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا لیکن حقیقت میں کنٹریکٹ پہلا بھی کینسل ہوا اور دوسرا بھی اور موقع پر کام کسی ایک بھی کمپنی نے نہیں کیا۔
اب پوچھتے ہیں کہ کرپشن ہوئی کہاں؟؟گرفتار کیوں کیا؟؟ اس کا جواب اب اُسی نیب سے لیں جسے سانپ کی طرح آپ نے خود پالا تھا۔ اس کا جواب اُن چیئرمین نیب سے لیں جسے ن لیگ اور پی پی پی نے بڑی سوچ بچار کے بعد تعینات کیا تھا۔تحریک انصاف والے کہتے تو سچ ہیں کہ چیئرمین آپ کا اپنا تعینات کیا ہوا، نیب وہی جسے آپ نے اپنی حکومتوں کے دوران قائم رکھا اور اصلاحات کرنے
سے بھی گریز کیا تو پھر بھگتیں۔ یہ صورتحال تحریک انصاف کے لیے مزے لینے والی ضرور ہے لیکن اگر پی ٹی آئی نے بھی وہی غلطی کی جو ن لیگ اور پی پی پی سے سرزد ہوئی تو جان لیں کہ اگلی باری پی ٹی آئی کی ہو گی۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی شو میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ن لیگ والوں کی ابھی اور چیخیں نکلیں گی، اس پر میں نے اُن سے گزارش کی کہ جب ن لیگ
اور پی پی پی کی چیخوں کا مزہ لے چکیں تو پھر احتساب کے نظام اور نیب کے گزشتہ پندرہ، بیس سالہ دور پر غور ضرور کیجیے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں آپ بھی ن لیگ اور پی پی پی کی طرح پچھتائیں۔ ویسے میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ چند روز پہلے مجھ سے نیب خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والا ایک سینئر افسر ملا جس نے مجھے ’’خبر‘‘ دی کہ نیب کے پاس وزیراعظم عمران خان
کے پرنسپل سیکرٹری، وزیر دفاع اور کچھ دوسروں کے خلاف بڑے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ کس طرح اُنہوں نے مبینہ طور پر کرپشن کی۔ میں نے جواب میں نیب افسر سے کہا کہ میں نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اچھی شہرت کے مالک افسر ہیں۔میں نے نیب افسر سے یہ بھی کہا کہ مجھے متعلقہ دستاویزات فراہم کریں تاکہ میں اُن کا مطالعہ کر سکوں۔
میں نے اُن سے کہا کہ کہیں موجودہ پرنسپل سیکرٹری کا حال بھی پرانے پرنسپل سیکرٹری جیسا کرنے کا ارادہ تو نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ نیب لاہور نے کس طرح علیم خان کو وزیراعلیٰ بننے سے روکنے کے لیے میڈیا کو یہ خبر جان بوجھ کر لیک کی کہ نیب علیم خان کے جوابات سے مطمئن نہیں۔ گویا مجھے ڈر ہے کہ ن لیگ کی چیخوں کی خوشی میں تحریک انصاف کہیں وہی غلطی
نہ کر لے جو ن لیگ اور پی پی پی نے کی۔ یاد رہے کہ نیب کو کسی کو پکڑنے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ جھوٹا سچا کیس بنانا نیب کا فن ہے اور اسی فن کو استعمال کرتے ہوئے اُس نے ماضی میں کنگز پارٹیاں بنوائیں، سیاسی جماعتوں کو توڑا، حکومتوں کو بنانے، بگاڑنے میں بھی کردار ادا کیا۔ پاکستان میں احتساب کیسا ہوتا ہے، اس کا ہم نے ایک نمونہ گزشتہ ہفتے بھی دیکھا۔
جیو کے سینئر رپورٹر اعظم خان نے ایک بڑی خبر دی جو یقیناً ایک اسکینڈل تھا۔ اعظم خان نے نیب راولپنڈی کے ڈی جی عرفان منگی کو احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ارشد ملک کے کمرہ سے نکلتے ہوئے کیمرہ کی آنکھ سے پکڑا۔ اُن کے ساتھ شریف کیسز میں نیب پراسیکیوٹر ٹیم کے سربراہ سردار مظفر عباسی بھی شامل تھے جبکہ ملاقات کے وقت جج ارشد ملک کے ساتھ ایون فیلڈ کیس میں
فیصلہ کرنے والے اور اسحاق ڈار کا کیس سننے والے جج محمد بشیر بھی موجود تھے۔ یہ ملاقات نواز شریف کے خلاف چلنے والے کیس کو سننے کے بعد کوئی تین بجے ہوئی۔ اعظم خان نے جج ارشد ملک کے کمرہ سے نکلتے ہوئے عرفان منگی سے پوچھا کہ وہ جج صاحبان سے کیوں ملنے آئے؟ جس پر منگی نے کہا کہ وہ تو جج صاحبان سے ملے ہی نہیں بلکہ وہ اپنی پراسیکیوشن ٹیم کے کمرہ
کی سہولتوں اور ایئر کنڈیشن کے معاملات کو دیکھنے آئے تھے۔ دوسرے روز جب نواز شریف کا کیس احتساب عدالت میں چل رہا تھا تو خواجہ حارث نے گزشتہ روز کی ملاقات کا ذکر کیا جس پر جج ارشد ملک نے تسلیم کیا کہ اُن کی منگی سے ملاقات ہوئی تھی۔ جج ارشد ملک کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے خود منگی کو کسی دوسرے کیس میں ملزم کے سمن کے سلسلے میں طلب کیا تھا۔ اس ملاقات کا،
جس میں نواز شریف کے مقدمات میں نیب کے چیف پراسیکیوٹر مظفر عباسی بھی شامل تھے، ہونا ہی کسی اسکینڈل سے کم نہیں لیکن عرفان منگی نے جو کہا وہ جج ارشد ملک کے بیان سے بالکل مختلف ہے۔ اس خبر پر (جس نے ایک بار پھر نواز شریف کے خلاف احتساب کے بارے میں شدید شکوک و شبہات پیدا کر دئیے) باقاعدہ ایک انکوائری ہونی چاہئے تھی لیکن نجانے کیوں اس اسکینڈل کو سبھی پی گئے۔