لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی گزشتہ روز گرفتاری عمل میں آتے ہی بڑے پیمانے پر بڑے بڑے افسران کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ سابق وزیراعلی پنجاب کی گرفتاری کے بعد کئی اعلیٰ سرکاری عہدیداروں میں بے چینی کی لہرسی دوڑ گئی ہے ۔ تاہم اب 56 کمپنیاں کیس میں مزید 8 افسران نے وعدہ معاف گواہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔قومی اخبار میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹے کے مطابق
56 کمپنیوں کے حوالے سے کی گئی تحقیقات میں کرپشن کرنے والے سیاسی اور سرکاری با اثر مافیا کے خلاف سخت ایکشن لینے کے لیے نیب نے تیاری مکمل کر لی ہے ، جبکہ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں متوقع ہیں ۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق آئندہ چند روز میں جن اہم افراد کی گرفتاری کا امکان ہے ان کے حوالے سے اہم اداروں کو خبردار کر دیا گیا ہے تاکہ نظر رکھی جائے کہ کہیں یہ افراد ملک سے باہر نہ چلے جائیں۔جبکہ دوسری جانب قومی احتساب بیورو( نیب) نے سابق وزیر اعلیٰ و مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہباز شریف پر عائد کئے گئے الزامات کی تفصیل جاری کردی ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ محمد شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ غیر قانونی طور پر پی ایل ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی طاقت کا غیرقانونی استعمال کیا۔ملزم شہباز شریف کی شریک ملزم سیکرٹری امپلی مینٹیشن فواد حسن فواد سے باہمی ملی بھگت سے پیپرا قوانین کے مطابق اور میرٹ پر ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنی چوہدری لطیف اینڈ سنز سے مبینہ غیر قانونی طور پر یہ ٹھیکہ منسوخ کروایا گیا۔ملزم نے مبینہ طور پر من پسند کمپنی کو غیر قانونی منافع دینے کی غرض سے ٹھیکہ منسوخ کروایااور اسی کمپنی سے غیرقانونی طور پر مالی فوائد حاصل کیے۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ملزم شہباز شریف نے 21 اکتوبر 2014 کو آشیانہ اقبال پراجیکٹ کا ٹھیکہ پی ایل ڈی سی سے ایل ڈی اے کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔ملزم کا یہ اقدام سرعی طور پر غیرقانونی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ پی ایل ڈی سی کا قیام ہی اس قسم کے
تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہوا تھا۔پی ایل ڈی سی کے تمام فیصلے آزادانہ طور پر بورڈ آف ڈائریکٹر کی منظوری سے ہوتے تھے جس کی وضاحت قانونی طور پر کارپوریٹ گورننس ایکٹ 2013 کے طور پر کی گئی۔ان اقدامات سے پی ایل ڈی سی کے وجود کی نفی ہوتی نظر آئی اور حکومتی خزانے کا کروڑوں کا نقصان پہنچا۔ملزم نے غیرقانونی طور پر ہی ایل ڈی اے کو ٹھیکہ منتقل کرنے کی منظور ی دلوائی جبکہ اس وقت کے
ڈی جی ایل ڈی اے احد خان چیمہ تھے۔شریک ملزم احد خان چیمہ نے آپس کی باہمی ملی بھگت سے آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ منتقل کرنے کے لیے غیرقانونی فوائد حاصل کیے۔ملزم احد خان چیمہ نے شریک ملزمان سے ملی بھگت کرتے ہوئے ٹھیکہ پبلک پرائیویٹ پارٹرنر شپ کے تحت ٹھیکہ حاصل کرنے کے احکامات جاری کیے۔اس طرح پبلک پارٹنر شپ کے تحت ٹھیکہ منظورنظر میسرز بسم اللہ انجینئرنگ کو دے دیا گیا جو پیراگون کی
پراکسی کمپنی تھی۔اس پارٹنر شپ کے تحت 2000 کنال زمین پراجیکٹ کے تعمیراتی معاوضہ کی مد میں مذکورہ کمپنی کو منتقل کر دی جانی تھی۔نیب کے اعلامیے میں پیراگون سٹی کے آشیانہ اقبال پراجیکٹ سے حاصل فوائد کے بارے میں بھی تفصیلات پیش کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ 3 سے 4 سال تک 2000 کنال زمین پیراگون سٹی کے قبضہ میں رہی جس کا کچھ حصہ اس دوران فروخت بھی کر دیا گیا۔آشیانہ اقبال پراجیکٹ کی یہ
زمین پیراگون سے متصل تھی۔نیب لاہور کی جانب سے زمین کی اس غیرقانونی فروخت کی الگ انکوائری زیر تفتیش ہے۔حیران کن طور پر جب نیب لاہور کی جانب سے نومبر 2017 میں اس کی انکوائری شروع ہوئی تو پنجاب حکومت کی جانب سے کنٹریکٹ کو فوری طور پر کینسل کر دیاگیا۔