اسلام آباد (آن لائن) سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف دور میں قائم کی جانے والی فیصل آباد پارکنگ کمپنی میں بھی کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانیاں اور کرپشن کی داستانین سامنے آئی ہیں کمپنی انتظامیہ میرے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر کمپنی فنڈز سے لگژری گاڑی خرید کر ڈی سی او فیصل آباد کے حوالے کردی اور سات لاکھ روپے پیٹرول کی مدمیں بھی ادا کر دیئے گئے ہیں۔ کمپنی کے قیام کا مقصد فیصل آباد کی عوام کو سہولیات فراہم کرنا تھیں لیکن کمپنی کے امور چلانے والے
افسران نے قومی فنڈز شیر مار سمجھ کر ہڑپ کرلیا۔ کمپنی کے خلاف کی جانے والی تحقیقات کے مطابق کمپنی کے انتظام چلانے کیلئے افسران نے سالانہ چھ کروڑ خرچ کئے جبکہ ہر سال ساڑھے تین کروڑ روپے کا نقصان بھی برداشت کیا۔ جبکہ کمپنی افسران کے بینکوں سے بھاری قرضے حاصل کئے جو ابھی تک واجب الادا ہیں رمضان بازار کے نام پر کمپنی انتظامیہ نے مقامی تاجروں سے خوب مال کمایا اور لاکھوں روپے سٹیشنری کی خریداری کے نام پر کمپنی کے اکاؤنتس سے حاصل کرلئے جبکہ کمپنی میں بھرتی ہونے والے اہلکاروں کی تعلیمی ڈگریوں کی جانچ پڑتال بھی نہیں کی گئی اور خدشہ ہے کہ متعدد اہلکاروں کی ڈگریاں جعلی ثابت نہ ہوں۔ دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ افسران نے رمضان بازاروں کی صفائی و دیگر معمولی کاموں کیلئے بھرتی کئے گء یڈیلی ویجز ملازمین کے نام سے کمپنی کے اکاؤنٹس سے نو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے نکلوائے تھے ان اہلکاروں کی بھرتی کرتے وقت اخبارات میں اشتہارات بھی نہیں دیئے گئے جبکہ فیصل آباد کی مقامی نجی کمپنی روبی ایڈورٹائزر کو غیر قانوی طریقہ سے 28 لاکھ روپے ادا کئے گئے ہیں جن کی تحقیقات حتمی مرحلہ میں ہیں۔ محکمہ بلدیات کے حاضر سرور افسر کو فیصل آباد پارکنگ میں ٹیکنیکل ایڈورٹائزر بھرتی کرکے ساڑھے تین لاکھ روپے کی ادائیگی کردی اور موصوف محکمہ بلدیات سے بھی
تنخواہ باقاعدگی سے وصول کرتے رہے فیصل آباد پارکنگ کمپنی شعبہ فنانس کے افسر تنویر حسین کو پارکنگ کمپنی میں بھاری تنخواہ پر بھرتی کیا گیا اور انہیں 31 لاکھ روپے ادا بھی کردیئے گئے جبکہ کمپنی انتظامیہ نے کمپنی کے 26 کروڑ 37 لاکھ روپے کی مالی بے قاعدگی کر رکھی ہے جبکہ اہلکاروں کے لئے خریدی گئی جیکٹ اور یونیفارم کے نام پر 22 لاکھ روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ فیصل آباد پارکنگ کمپنی کے ایم ڈی ام لیلیٰ نقوی کو وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ہدایت پر تعینات کیا گیا
جس نے کمپنی کے فنڈز مین انت مچا دی اور کمپنی کے قواعد کے برعکس کمپنی سے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کرتی رہی۔ ام لیلی نقوی شہباز شریف کی چہیتی افسر تھی اور کمپنی کے امور نمٹانے کی بجائے زیادہ وقت لاہورمیں گزارتی تھیں ۔ کمپنی انتظامیہ نے ٹوکن ٹکٹ کی خریداری میں 40 لاکھ کا گھپلا کر رکھا ہے جبکہ ام لیلیٰ نے فیصل آباد کے کار ڈیلر سوزو کی برج موٹر سے چار لگژری گاڑیاں خریدیں جس پر 62 لاکھ سے زائد کے فنڈز اڑا دیئے ۔
نجی کمپنی گلوبل پرائیویٹ کو 1 کروڑ روپے دیئے گئے ہیں جبکہ کمپنی کے ایڈمن منیجر عامر ذیشان نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے 13 لاکھ روپے کا گھپلا کر رکھا ہے اور ہر ماہ کمپنی سے 80 ہزار بھی وصول کرتا رہا۔ افسران نے سروس رولز کی خلاف ورزی پر 13 کروڑ ملازمین کو جاری کئے جبکہ بورد کے ڈائریکترز کو بھی لاکھوں روپے ادا کئے گئے۔ اور خالد محمود حسین ای ڈی او کو لاکھوں روپے ادا کرنے کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔ کمپنی کا آفس ایک بنگلہ نما گھر میں بنایا گیا جس کے کرائے پر 20 لاکھ ادا کئے گئے ہیں۔