اسلام آباد (آئی این پی)قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے منی بجٹ کو آئی ایم ایف کی سفارشات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا پلان ہے، حکومت کو آدھے مشیر رائے دے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی حل نہیں، حکومت نے بجٹ میں فائلر اور نان فائلر زمیں فرق ختم کر دیا،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا،بدقسمتی سے نئے پاکستان کی بسم اللہ اچھی نہیں ہوئی،
ڈیمزچندے سے نہیں بنتے، اگر چندہ اکٹھا ہی کرنا ہے تو پہلے حکومت اس کو پی ایس ڈی پی میں ڈال کر پہلے اپنا حصہ تو ڈالے، ضمنی مالیاتی بل 2018 میں شامل تجاویز کے تحت شرح نمو متاثر ہوگی، وزیر خزانہ نے شرح نمو میں اضافہ کے حوالے سے کسی لائحہ عمل پر بات نہیں کی۔وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا کہ حکومت کی پہلی ترجیح معیشت کو سہارا دینا ہے ،سابق حکومت نے خزانہ خالی چھوڑا ،بچت اور مالیاتی اصلاحات کے ذریعے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے کوشاں ہیں ،پاکستان پرتعیش اشیا کی درآمد کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے ان آئٹمز کی درآمد کم کرنے کے لئے ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی ،اگر ہم نے ایکسپورٹ کی صنعت ٹھیک نہ کی تو حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔وہ منگل کو قومی اسمبلی میں فنانس ترمیمی (بل)2018پر جاری عام بحث میں اظہار خیال کر رہے تھے۔اس قبل فنانس ترمیمی (بل)2018پر دوسرے روز بحث کا آغاز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ جب میں بات کروں وزیرخزانہ اسد عمر اس ایوان میں موجود ہوں، کیونکہ قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی میں اسد عمر اور میں ممبر تھے اور بطور اپوزیشن ایک ساتھ پوائنٹس بناتے تھے، بجٹ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وزیر خزانہ کو ملک کو درپیش مسائل کی سنگینی کا علم نہیں، حکومت کی طرف سے نعرہ بلند کیا جاتا ہے کہ
ہم چوروں کو پکڑنے جا رہے ہیں مگر پھر پالیسی بھی ایسی ہونی چاہیے، حکومت نے بجٹ میں فائلر اور نان فائلر میں فرق ختم کر دیا، گزشتہ حکومت نے اچھا اقدام کیا کہ نان فائلرز پر گاڑیاں اور پراپرٹی خریدنے پر پابندی لگائی، مگر نئی حکومت نے آتے ہی اوورسیز پاکستانیز کے نام پر یہ پابندی ختم کر دی، اس مسئلے کو حل کرنے کے اور بھی بہت طریقے تھے مگر حکومت کا مقصد کچھ اور تھا اور بلیک اور وائٹ منی میں فرق ختم کر دیا، حکومت نے ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے،
حکومت واویلہ کر رہی تھی کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈال رہے مگر دوسری طرف گیس کی قیمتیں بڑھا دیں، جس کے چند دن بعد بجلی کی قیمت 2روپے فی یونٹ بڑھا دی گئی، آئندہ چند دنوں میں پٹرول کی قیمت میں بھی اضافہ کیا جائے گا،جس سے ملک میں مہنگائی کا نیاطوفان آئے گا، بدقسمتی سے نئے پاکستان کی بسم اللہ اچھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری درآمدات بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ برآمدات کم ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور روپے کی قدر کم ہو رہی ہے،
حکومت کا موقف ہے کہ لگژری چیزوں پر کسٹم ڈیوٹی بڑھائی جائے، یہ منطق سمجھ نہیں آئی کہ کسٹم ڈیوٹی بڑھانے سے ریونیو میں اضافہ کیسے ہو گا، ہمیں ان چیزوں کو منگوانے کیلئے ڈالرز تو دینا پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا پلان ہے، حکومت کے آدھے مشیر رائے دے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی حل نہیں، اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی ہے تو عوام کو بتا دے تا کہ وہ ایک دفعہ ہی کڑوی گولی کھالیں۔
اس ایوان نے سعودی جنگ کی مخالفت کی تھی، دورہ سعودی عرب میں معاہدہ کر کے آئے ہیں؟بتایا جائے۔ہمیشہ بچت کے نام پر ترقیاتی بجٹ پر تلوار چلائی جاتی ہے، دیامر بھاشا ڈیم کا واویلہ کیا جاتا ہے مگر حکومت نے اس کو پی ایس ڈی پی میں نہیں ڈالا، ڈیمزچندے سے نہیں بنتے، اگر چندہ اکٹھا ہی کرنا ہے تو پہلے حکومت اس کو پی ایس ڈی پی میں ڈال کر پہلے اپنا حصہ تو ڈالے، گزشتہ حکومت نے بھی زراعت پر توجہ نہ دی مگر بدقسمتی سے اس حکومت میں بھی لگتا ہے
زراعت کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا، حکومت اقدامات کی وجہ سے ربی سیزن میں یوریا کی قلت کا خدشہ ہے، ارسا کی رپورٹ کے مطابق ربی سیزن میں 50فیصد پانی کی کمی کا بھی خدشہ ہے، اگر پانی اور یوریا نہیں ہو گا تو زراعت کاکیا بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو سرجری کی ضرورت ہے اس کو اسپرین نہ دیں، ان حالات میں سخت فیصلوں کی ضرورت ہے، اپوزیشن لیڈر نے پیشکش کی کہ میثاق معیشت کیا جائے، کوئی بھی حکومت اس طرح کی پیشکش کو فوری قبول کرتی ہے
مگر آپ نے کہا اس کی کوئی ضرورت نہیں، حکومت اگر ایسا نہیں کریگی تو اس میں اپوزیشن کا فائدہ ہے ،اپوزیشن حکومت کے منفی کاموں کو عوام کے سامنے رکھے گی۔مسلم لیگ(ن)کی رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر خزانہ پنجاب عائشہ غوث نے کہا ہے کہ ضمنی مالیاتی بل 2018 میں شامل تجاویز کے تحت شرح نمو متاثر ہوگی، وزیر خزانہ نے شرح نمو میں اضافہ کے حوالے سے کسی لائحہ عمل پر بات نہیں کی، ضمنی بجٹ تجاویز سے شرح نمو متاثر ہوگی۔
اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا مشکل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے 2700 ارب روپے کا بجٹ خسارہ کیسے پورا کریں گے۔ اس حوالے سے ابہام موجود ہے۔ یہ معاملہ وضاحت طلب ہے۔ بجٹ کو معتبر بنانا ہے تو شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ یہ بھی بتایا جائے کہ ٹیکس لگائے بغیر 200ارب روپے حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہوگا اس سے بھی ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ مالیاتی خسارہ پر قابو پانے کے لئے آزادانہ تجارت کے معاہدوں کو
عملی شکل دی جائے اورعلامتی اقدامات کی بجائے عملی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔وصولی اور اخراجات اور ٹیکسوں کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کرنا چاہیے۔ضمنی مالیاتی بجٹ میں نان فائلرز کے لئے ودہولڈنگ ٹیکس میں رعایت دی گئی اس کے برعکس بنکوں سے لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ڈیم بنانے میں سنجیدگی ہے تو اس کے لئے ایک طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ایک فیصد ٹیکس عائد کرکے ڈیم کے لئے فنڈز اکٹھا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس 20 کروڑ عوام کے نمائندے کی جائے رہائش ہے 10ڈاؤننگ سٹریٹ کوئی چھوٹی عمارت نہیں بلکہ وہاں 100کمرے ہیں۔وزیراعظم ہاؤس عوامی نمائندگی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان قوم کی آواز ہے اس کو لیز پر دینے کی بات کی جارہی ہے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو ختم کردیا گیا ہے حکومت کون سے وژن پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری کے لئے علامتی اقدامات کی بجائے عملی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی شہناز وزیر بلوچ نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل میں خواتین کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے میں اصلاحات کے لئے جو ٹاسک فورس بنائی گئی ہے اس میں بلوچستان سے نمائندگی نہیں ہے اس کا بھی نوٹس لیا جائے۔محمد اسلم بھوتانی نے کہا ہے کہ حکومت پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے منصوبے میں کٹوتی نہ کرے،سی پیک کی جان گوادر سٹی اور بندرگاہ جلد از جلد مکمل کی جائے، ایسا نظام متعارف کرایا جائے
جس سے لسبیلہ میں واقع کارخانے و فیکٹریاں جو وفاق کو ٹیکس دیتی ہیں وہ سندھ کی بجائے بلوچستان کے حصے کا ٹیکس، کلیکشن میں شمار ہو اور اسی بنیاد پر این ایف سی ایوارڈ بلوچستان کو دیا جائے،ں ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور مالی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے لیکن حکومت کی بلوچستان کی پسماندگی اور باالخصوص سی پیک کے حوالے سے گوادر کی اہمیت کو مدنظر رکھے۔وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح معیشت کو سہارا دینا ہے
سابق حکومت نے خزانہ خالی چھوڑا بچت اور مالیاتی اصلاحات کے ذریعے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے کوشاں ہیں پاکستان پرتعیش اشیا کی درآمد کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے ان آئٹمز کی درآمد کم کرنے کے لئے ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کی تجویز ہے۔سینٹ کمیٹی میں ہم نے ایک ایک بات کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسی شرح نمو نہیں چاہتے جس کی بنیاد مقروض معیشت پر ہو۔ پچھلی حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ کیا ہے۔ اگر قرض لے لے کر رقم ڈالتے جائیں گے
تو یہ شرح نمو پائیدار نہیں ہوگی۔سابق حکومت خزانہ خالی چھوڑ کر گئی ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے رقم نہیں ہے۔ اپوزیشن کا ایک حصہ کہتا ہے کہ ٹیکس کم کریں جبکہ نوید قمر کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قومی کارپوریشنز پانچ پانچ سو ارب سالانہ کا نقصان کر رہی ہیں۔ اگر ہم نے ایکسپورٹ کی صنعت ٹھیک نہ کی تو حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح معیشت کو سہارا دینا ہے۔ غیر ضروری آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کا مقصد درآمدات میں کمی لانا ہے۔ اس کے دوہرے فوائد حاصل ہوں گے۔