اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور دیگر نے سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہوئے غیرمشروط معافی مانگ لی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار سابق ڈی پی پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کر رہے ہیں۔عدالت کے طلب کیے جانے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور احسن اقبال جمیل پیش ہوئے،
وزیراعلیٰ نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعلیٰ بنے تیسرا دن تھا جب مانیکا فیملی اور پولیس کے واقعے کا علم ہوا۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ چاہتا تھا معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو جائے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘آپ نے رات 10 بجے پولیس افسران کو طلب کیا؟ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میں نے افسران کا حال احوال پوچھا اور ان کی خود چائے سے تواضع کی اور آر پی او سے کہا کہ اس معاملے کو خود حل کریں تاہم کوئی سیاسی دباؤ نہیں ڈالا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرا کسی سے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب انکوائری ہوگی تو سارے رابطے سامنے آجائیں گے۔عدالت نے آئی جی کلیم امام کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالد لک کو نئی انکوائری رپورٹ 15 دن میں پیش کرنے کا حکم دیا۔۔ واضح رہے کہ آج چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ بنچ نے ڈی پی او تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سابقہ آئی جی پنجاب و موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی کلیم امام کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ ہم نے آپ پر بھروسہ کر کے کیس میں سیاسی پہلو کی تحقیقات آپ کے حوالے کی تھیں ،
آپ نے ہمارا اعتماد توڑا ہے۔آپ نے بدنیتی پر رپورٹ بنائی، ہم نے اگر لکھ دیا تو آپ پولیس میں نہیں رہیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ نے اپنے سامنے پولیس افسران کو بے عزت کروایا، بلائیں وزیراعلیٰ۔ چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو دو بجے سپریم کورٹ پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔