اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی و کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید 1993ء میں دوسری مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بنیں تو ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن چودھری علی اکبر وینس کو کینسر ہو گیا۔ وزیر اعظم محترمہ کو پتا چلا تو انہوں نے بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے علی اکبر وینس کو
وزیر اعظم ہائوس بلایا اور کہا کہ ’’میں آپ کو لندن بھجوا رہی ہوں تاکہ وہاں آپ کا علاج ہو سکے۔‘‘ وزیر اعظم کی زبان سے یہ الفاظ سننے کے بعد سادہ سا جاٹ بولا….. ’’نہیں بی بی ! میں لندن نہیں جائوں گا ، میں نے ٹھیک ہونا ہوا تو یہیں ہو جائوں گا کیونکہ میں نے نیو یارک اور لندن میں اپنی آنکھوں سے قبرستان دیکھےہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں بھی لوگ مرتے ہیں، میں پاکستانی قوم کا پیسہ اپنے علاج پر خرچ نہیں کروانا چاہتا ، میری ماں نے ہمیں کبھی بغیر وضو کے کھانا نہیں کھلایا تھا، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں قوم کا پیسہ اپنے علاج پر خرچ کروں، میں نے کل کو خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔‘‘ بعد میں علی اکبر وینس پاکستان ہی میں ٹھیک ہو گئے تھے، مجھے علی اکبر وینس کے جملے آج بھی یاد آتے ہیںکہ کیسے کیسے لوگ تھے یہاں، کیا شان تھی ان کی، کیا عظیم لوگ تھے۔ ویسے آپ کو بتادیتا ہوں کہ علی اکبر وینس کا خاندان قیام پاکستان کے وقت گوردا سپور سے ہجرت کر کے آیا تھا۔مظہر برلاس مزید لکھتے ہیں کہ کلثوم نواز ایک مدبر خاتون تھیں۔ میری ان سے بہت سی ملاقاتیں تھیں۔ وہ اپنے خاندان کے مشکل وقت میں کام آئیں۔ انہوں نے خاندان کے افراد کی جانیں بچائیں اور ایک معاہدے کے ذریعے انہیں بیرون ملک لے گئیں۔ ان کا موازنہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ یا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں کیونکہ
بیگم کلثوم نواز ایک گھریلو خاتون تھیں۔ مجھے ان کے بیٹوں پر افسوس ہےجواپنی ماں کی قبر پر مٹی ڈالنے بھی نہیں آ پائے۔ نواز شریف کے بیٹوں نے یہ خیال ہی نہیں کیا کہ وہ اپنی ماں کی تدفین میں شریک ہوں حالانکہ جان بھی چلی جانی ہے اور مال بھی فانی ہے۔ نظیر اکبر آبادی ایسے مرحلوں پر اکثر یاد آجاتے ہیں کہ:۔دھن دولت ناتی پوتا کیا کچھ کنبہ کام نہ آوے گا،سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔