اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ درجنوں دفعہ ،سالوں سے لکھ لکھ ہارا ،وطن دشمن جیتا۔ پاک چین اقتصادی راہداری دونوں ملکوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ جبکہ امریکہ اور بھارت نے بننے نہیں دینا۔ امریکہ بھارت کامیاب۔پاکستان 71سالہ زندگی کے بدترین اقتصادی بحران کے شکنجے میں ۔
خود اپنی محنت سے پیدا کیا ہے۔بقول صوفی شاعر میاں محمد بخش، ’’جے پچ جاوے تے مناں‘‘۔ پچھلے ڈیڑھ سو سالوں کی جدید ریاستی ترتیب میں،ایک مثال نہیںکہ سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں،اقتصادی استحکا م رہے۔ کیا کسی کو معلوم تھا کہ 2014ء سے شروع “Opration Get Nawaz” ، کامیابی کے بعد ملک کا کیا بنے گا؟ بد قسمت ریاست، جب بھی وطن عزیز پرکڑا وقت آیا، قوم کو منقسم پایا۔سیاسی تناؤ اورتقسیم کو پچھلے چار سال سے باقاعدہ اہتمام سے سجایا سنوارا گیا۔محنت ، مشقت سے شدت وبہتات نصیب بنی۔نئی نویلی حکومت ریاست پر سوار،’’ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ‘‘ ۔سرپٹ اندھا دھند دوڑ نا اہلی، غیر سنجیدگی ،قوت فیصلہ سے محرومی ،مجموعہ تضادات ناپختگی ،ناتجربہ کار ی کوٹ کوٹ بھری، اُمڈ اُمڈ سامنے۔کئی کام کرڈالے۔معاملات نبٹائے۔ حاصل کارکردگی،ہزیمت ۔پہلی تین کابینہ میٹنگز کی تفصیلات نکالیں، ترجیحات،اہلیت نمایاں کر گئیں۔مجال ہے ملک کو در پیش سنگین مسائل کے قریب بھٹکے ہوں۔ ادراک سے ایسی دوری، الامان الحفیظ۔کفایت شعاری، گورنر ہاؤس گرانا،لگژری کاریں بیچنا، وزیر اعظم کا وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کسی کونے میں، کئی دن خرچ کر ڈالے ۔بالآخرپکڑا دائیاں کان ہی ،مگر بائیں ہاتھ سے۔اسی لئے8گھنٹے بریفنگ کافوری بندوبست کیا۔ GHQ کا اعجاز کہ واپسی پر معاملات پر کچھ قومی سنجیدگی نظر آئی ۔
آج کا موضوع نہیں، یار زندہ، آئندہ کالم ’’ پاک چین تعلقات پہلی دفعہ امتحان میں ‘‘، پر لکھوں گا۔ جملہ معترضہ اتنا، مبارک ہو ، اقتصادی راہداری پرقوم تقسیم ہوچکی۔ ٹرمپ اور مودی گویا اسی دن کے انتظار میں۔کیا سی پیک دوسرا کالا باغ ڈیم بننے کو؟اگرچہ ساری اداراتی صلاحیتیں عمران خان کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے کامیاب وزیر اعظم ثابت کرنے میں صرف، عنقریب صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہے۔
اداروں کا پیمانہ آج بھی وہی جوماضی میں۔ اگر محمد خان جونیجو، ظفر اللہ جمالی اور چوہدری شجاعت وغیرہ پر بھروسہ نہ ہوسکا، توعمران خان کی بیتی کیونکر مختلف رہے گی۔ عمران خان کا معاملہ نواز شریف سے آسان رہنا ہے۔ سَر نِگوں رکھنے کی کئی اقسام موجود ہیں۔ یقینا عمران خان شوکت عزیز جیسا مؤدب وزیراعظم بن کر تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننا پسند نہیں فرمائے گا۔
جدید تاریخِ سیاست میں ایک سیاستدان ایسا نہیں ،جو عدالتی فیصلے ، جبر، استبداد،بڑے بڑے گھناؤنے الزام میں بِنا پابند سلاسل رہے ۔مجال ہے سیاسی طور پر تحلیل ہوپائے ۔اس میں باک نہیں کہ 2014ء سے نواز شریف کو سیاست کا جملہ معترضہ یا شجرممنوعہ بنانے کا عمل تن دہی سے جاری۔ بنیادی مسئلہ بنارہا۔ پانامہ لیکس سے پہلے اور حتمی طور پر بعدازاں ،قوم کو یہی کچھ باور کروایا گیا،
’’ نواز شریف بلکہ شریف خاندان قصہ پارینہ،مستقبل کی سیاست میں کوئی رول نہیں‘‘۔ ایسی سوچ کے پیچھے اصو ل ایک ہی کاررفرما، یقین مستحکم 22 کروڑعوام الناس مفلوج ، عاجزولاچار۔ نافذکر دیا ۔لکڑ ہضم پتھر ہضم۔اس دفعہ ممکن نہ رہے۔پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ٹرائل میں نواز شریف 11سال جبکہ مریم نواز 7سال قید کی سزا کے حقدارضرور ٹھہرے۔ ڈان لیکس پر قومی اور
سوشل میڈیا نے تو مریم کوہی مجرم بتایا۔لگتا تھا مریم نواز کسی لمحہ گرفتارہونے کو۔پاناما لیکس پر 18لاکھ پاؤنڈ(9کروڑ روپے) کی منی لانڈرنگ کے متنازعہ مقدمہ میں سزاگو 6جولائی 2018ء کو ملی۔4سال سے،پاناما پر بحث جاری ہے ، مجرم ڈکلیئر کردیا گیا۔آج کا اقتصادی بحران اسی 4سال کی محنت شاقہ کا صلہ ہے۔ ماننے کو تیار نہیں، کہ باپ بیٹی دونوں سکون اور چین سے جیل میں،
فریق مخالف کا چین و سکون چھن چکا۔ نواز شریف اور مریم کی جیل کیا رنگ لاتی ہے؟ کیا رنگ جماتی ہے؟ آنے والے دنوں نے آشکار کرنا ہے۔فی الحال نواز شریف اور مریم کا اعتمادوسکون سے فریق مخالف کے اعصاب گھائل ۔ ہمیشہ لکھا نواز شریف زندگی کی بہترین سیاست کر رہے ہیں۔سیاست کے بہترین لمحات کا چسکا، نشہ آور رہتا ہے۔اقتدار میں نواز شریف اتنا خطرناک نہیںتھا جتناآج جیل میں۔
ان گنت چھوٹے بڑے، اچھے برے سیاسی قیدیوں کی داستان ِمدُوجَز سینکڑوں سالوں پر محیط، سامنے بکھری ہے۔نپولین بونا پارٹ، گاندھی، ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی،فیض احمد فیض، نیلسن منڈیلا، شیخ مجیب الرحمٰن،بھٹو ، ولی خان ،مخدوم جاوید ہاشمی،زرداری، ملائیشیا کے انور ابراہیم،طیب اردگان ان گنت اور بے شمار ۔ ملائیشین اصلاح پسند، اسلامی سکالر ، سیاستدان انور ابراہیم کی
داستان ِ قید و بند ، نیلسن منڈیلا کے بعد کوئی دوسرا ہے تو سامنے لاؤ۔ ملائیشیا کا 71سالہ لیڈر انور ابراہیم ،پچھلے20سال تقریباً تسلسل سے جیل میں، قید و بند کی صعوبتیں بھگتنے کے باوجودآج طمطراق سے وزیر اعظم کا حلف اُٹھانے کے لیے تیار۔ عظیم اسلامی سکالر اور ماہر معاشیات انور ابراہیم کی سیاسی جد و جہد کا آغاز گوزمانہ طالب علمی سے ، مہاتیر محمد کی رفاقت میں
سیاسی نام نمود پروان چڑھا۔ 1991سے 1998ء تک وزیر خزانہ، جبکہ 1993 سے 1998ء تک نائب وزیر اعظم اور مہاتیر محمد کے جانشین رہے۔ملائیشیا کا معاشی انقلاب ،انور ابراہیم کا کسب کمال ہی تو تھا۔آج انور ابراہیم 20سالہ قید و بند سے باہر، مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔1998ء میں مہاتیر محمد سے ان بن ہوئی تو حکومت اور وراثت دونوں ضبط کر لیے گئے۔
حکومت سے باہرآئے تو زیادہ بھرپورسیاست چلائی۔مہاتیر کے خلاف 1998ء میں سڑکوں پر نکلے آئے۔’’ سابقہ ولی عہد ‘‘پر افتاد شروع ۔ مہاتیر نے انور ابراہیم کو جیل کی راہ دکھائی۔انور ابراہیم نے جیل سے مہاتیر کے خلاف مقبول مظاہرے شروع کرائے تو گرفتار انور ابراہیم کو کرپشن اوربدکاری جیسےغلیظ الزامات میں ملوث رکھا۔ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔1999ء میں عدالتی فیصلے
کے نتیجے میں 6سال بد کاری کے الزام اور 9 سال کرپشن پر سزا ہوئی۔دوران مقدمات 28 ستمبر 1998ء کا ایک دن ایسا بھی، جب انور ابراہیم عدالت میں لائے گئے تو چہرے اور جسم پر تشدد کے نشان واضح، آنکھیں کالی نیلی سوجی تھیں ۔ مہاتیر محمد نے انور ابراہیم کوہر اذیت سے دوچار رکھا۔مہاتیر کے بعد آنے والے حکمرانوں عبداللہ بداوی اور نجیب رزاق بھی انور ابراہیم کی جیل مدت میں
توسیع کر کے اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ چند ماہ پہلے2018ء کے جنرل الیکشن کی جیت نے انور ابراہیم کی قسمت کاپانسہ پلٹ دیا۔ آج سر خرو،بطور قومی ہیرو دندنارہے ہیں۔ انور ابراہیم اپنی زندگی کی بہترین اور بڑی اننگز کھیل چکے۔یقیناًاللہ نے انور ابراہیم سے کوئی بڑا کام لینا ہے۔مہاتیر نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملائیشیا کے بادشاہ سے انور ابراہیم کورہائی دلوائی۔
مقدمات کی واپسی کے بل پر دستخط کر وائے۔ انور ابراہیم آزاد۔ عنقریب وزیر اعظم بننے کو۔نواز شریف کی مماثلت نپولین، نیلسن منڈیلا،انور ابراہیم، زرداری کسی سے بھی نہیں ۔اگرچہ ایک قدر سب میں مشترک، سب لوگ طاقت اور اقتدار کی چھینا جھپٹی کی بھینٹ چڑھے تو کردہ نا کردہ گناہ ایشو نہ رہے ۔ بفرض محال کسی نے کوئی گناہ کیا بھی تو ،لوگوں نے کوڑا دان میں پھینکا۔جیل اندر نواز شریف
نے اگلے دنوں صرف یہی ثابت کرنا ہے کہ جیل کس دھج،شان،آن بان سے گزارنی ہے ۔باقی تاریخ میں یہی درج ، اگلا زمانہ اور نواز شریف لازم و ملزوم۔انور ابراہیم کی 20سال جیل ،زیادہ گناؤنے الزامات مثال سامنے ،یہی ثابت رکھا۔ 20سالہ جیل انور ابراہیم کی گردن میں خم نہ آیا،الفاظ کی کاٹ ،سختی پر سمجھوتہ نہ کیا ۔جیل کے اندر بیٹھ کرعظیم مہاتیر محمد، بد ترین دشمن، غلیظ الزامات میں
سزا دلوانے والا، 20سال جیل کا ذمہ دار، آج انور ابراہیم کے طفیل وزیر اعظم کے عہدہ پر۔دوسال کے اندر مہاتیر ،وزارتِ عظمیٰ انور ابراہیم کے حوالے کرنے کا پابند۔ نواز شریف کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔پانے کو سب کچھ ،بہت کچھ۔جیل سے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا سفر،تاریخی حقیقت رہنا ہے۔ہر موڑ پر رقم ہے۔تاریخ کو جھٹلانا ،جہالت رہے گی۔ ملائیشیاء ایک اقتصادی طور پر مستحکم ملک،سہار پایا ۔نواز شریف کی واپسی تک ،ریاست کا موجودسیاسی و اقتصادی بحران ،پاکستان سہار پائے گا؟تب تک پاکستان کتنا( نیا) بن چکا ہوگا؟ سوچ کر لرزہ براندام،رونگٹے کھڑے پاتا ہوں۔