اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار جاوید چوہدری نے 6ستمبر کو اڈیالہ جیل میں نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات سے متعلق وہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کا وزن کم محسوس ہو رہا تھا اور چہرے سے شادابی عنقا تھی تاہم لہجہ پہلے سے زیادہ توانا تھا‘ وہ مطمئن بھی دکھائی دیتے تھے‘ یوں محسوس ہوتا تھا
وہ اب ہر قسم کے نتائج بھگتنے کےلئے تیار ہیں‘ جیل نے مریم نواز پر بھی اثر کیا تھا‘ وہ بھی کمزور دکھائی دیتی تھیں لیکن وہ بہت کمپوزڈ تھیں‘ وہ ہر سوال کا سوچ سمجھ کر جواب دے رہی تھیں ‘ کیپٹن صفدر بیمار اور کمزور دکھائی دے رہے تھے‘ ان کی گردن پر جھریاں پڑ چکی تھیں اور وزن بہت کم ہو گیا تھا‘ میں کمرے میں داخل ہوا‘میاں نواز شریف اور مریم نواز سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے‘ میاں صاحب کے دائیں بازو مجیب الرحمن شامی اور جاوید ہاشمی تھےجبکہ باقی احباب سامنے بیٹھے تھے‘ کیپٹن صفدر مجھے دیکھ کر کھڑے ہو گئے‘ میاں نواز شریف اور مریم نواز بھی اٹھ گئے‘ میں شرمندہ ہوگیا‘ میں نے جلدی جلدی میاں نواز شریف سے ہاتھ ملایا اور سائیڈ پر بیٹھ گیا‘ میاں نواز شریف شگفتہ لہجے میں چٹکلے چھوڑ رہے تھے‘ ان کی زندہ دلی زندہ تھی‘ مجھے اچھا لگا‘ انسان کتنا بڑا اور مضبوط ہوتا ہے یہ فیصلہ مشکلیں کرتی ہیں اورمجھے میاں نواز شریف اس وقت اندر سے مضبوط اور بڑے انسان محسوس ہوئے۔یہ 6 ستمبر جمعرات کا دن تھا‘ میں میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر سے ملاقات کےلئے اڈیالہ جیل گیا‘ ن لیگ کے ایم این ایز‘ سابق وزراءاور فیملی کے افراد جیل کے سامنے کھڑے تھے‘ جیل حکام نے انہیں دھوپ میں روک رکھا تھا‘ یوں محسوس ہوتا تھا ان لوگوں کو ان کی ”اوقات“ دکھانے کےلئے سڑک پر کھڑا کیا گیا ہے‘ خواجہ آصف سے
بار بار ان کا نام پوچھا جا رہا تھا اور پھر لمبی فہرست میں ان کا نام تلاش کیا جا رہا تھا‘میں نے خواجہ آصف سے کہا”خواجہ صاحب اب ان کو آپ کا نام نظر نہیں آ سکتا“ خواجہ آصف نے قہقہہ لگایا‘ یہ بھی ڈیڑھ گھنٹہ دھوپ میں کھڑے رہے‘ گیٹ سے ملاقات کا کمرہ آدھ کلو میٹر دور تھا‘ تمام لوگ دھوپ میں چل کر وہاں تک پہنچ رہے تھے‘ میں اس سارے عمل سے گزر کر میاں نواز شریف تک پہنچا‘ یہ پروسیجر مشکل ضرور تھا لیکن اس میں ایک بات اچھی تھی‘ تمام لوگوں کےلئے معیار اور عمل یکساں تھا‘ کسی کو خصوصی سہولت نہیں دی جا رہی تھی‘