اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نیوز کاسٹر عشرت ثاقب کو کون نہیں جانتا۔گزشتہ دنوں ان کا انٹرویو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔عشرت ثاقب نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں میں پیدا ہوئیں میری والدہ سکول ٹیچر تھیں والد منسٹری آف ہیلتھ میں کام کیا کرتے تھے ،اسلام آباد میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔میں سکول میں تھی جب ریڈیو اور ٹی وی کا سفر شروع ہو گیا ۔میں خاصی ایکٹیو طالبہ تھی ۔
اپنے سکول میں ہونے والے بحث مباحثوں میں حصہ لیا کرتی تھی ،ہماری ایک سکول ٹیچر مجھے آڈیشن کے لئے ریڈیولے گئیں لیکن میں اپنے اس آڈیشن میں فیل ہو گئی کہا گیا کہ آپ کی آواز میچور نہیں ہے لیکن وہاں ایک پرڈیوسر ذوالفقار شاہ تھے انہوں نے مجھے اپنے پروگرام ’’صبح بخیر ‘‘ جسے صفدر ہمدانی کیا کرتے تھے اس کا حصہ بنایا ۔وہ اس وقت کا بہت ہی مقبول پروگرام تھا۔ مشتاق صدیقی سمیت بڑے بڑے نام ان پروگرام کا حصہ بنے یوں اس پروگرام کا حصہ بننا میرے لئے بہت ہی زیادہ فخر کی بات رہی ۔ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے عشرت نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ریڈیو کے لئے راولپنڈی جایا کرتی تھی، میں صبح کو یونیفارم پہن کر نکلتی اور میری والدہ مجھے وین پر بٹھانے کے لئے آتی تھیں وہ سارا راستہ مجھے ڈانتی کہ یہ کیا تم نے عذاب پال لیا ہے اور پتہ نہیں تمہیں کس قسم کا شوق پیدا ہو گیا ہے ۔میں وہاں سے پروگرام کرنے کے بعدوین میں بیٹھتی اور سکول کی طرف بھاگتی ۔ مجھے معروف سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ ’’ریڈیو کلینک ‘‘ کرنے کا موقع بھی میسر آیا ۔پھر مجھے کسی نے کہا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر موسم کے حال بتانے کے آڈیشن ہو رہے ہیں۔ میں ایک عام سی شکل و صورت کی لڑکی وہاں گئی میرے ماموں میرے ساتھ تھے وہ ریسیپشن پر بیٹھے ہوئے تھے میں نے موسم کا آڈیشن دیا تو مجھے کہا گیا کہ چھوڑیں موسم کے آڈیشن کو آپ خبرنامے کا سکرپٹ پڑھیں۔
میں نے سکرپٹ پڑھا اور آڈیشن دیدیا ،میں پہلے سمجھی کہ میرے ساتھ مذاق ہو رہا ہے خیر ہم گھر چلے گئے تو اگلے دن مجھے بتایا گیا کہ میرا سلیکشن ہو گیا ہے لہذا میں کل سے پی ٹی وی جا سکتی ہوں، ایک ہفتہ ریہرسل کرنے کے بعد میں آن ائیر آگئی مجھے یاد ہے کہجب میں نے باقاعدہ طور پر نیوز کاسٹنگ شروع کی تو رمضان کا مہینہ تھا خبریں پڑھنے کا یہ سفر آج تک جاری ہے وہ الگ بات ہے کہ پی ٹی وی سے ناگزیر وجوہات کی بناء پر علیحدگی اختیار کرنا پڑی ، اب میں ریڈیو پر خبریں پڑھ رہی ہوں ۔
جب میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ پی ٹی وی سے الگ کیوں ہوئیں تو میرے پاس اس بات کا جواب نہیں ہو تا ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب میں نے خبریں پڑھنا شروع کیں اس وقت ٹی وی پر آنا بڑی بات نہیں تھی بلکہ نیوز پڑھنا بہت بڑی بات تھی کیونکہ اس وقت اظہر لودھی ،عبدالسلام ،مہ پارہ صفدر ،ثریا شہاب اسلام آباد میں ہوتے تھے جب کہ کراچی میں وراثت مرزا ،زبیرجیسے لوگ تھے یہ ایسے نام تھے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر خبریں پڑھنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور مجھے یہ موقع میسر آیا ۔
میں نے بھی نہیں سوچا تھا لیکن قسمت نے مجھے ان کے ساتھ لا کر کھڑا کر دیاآج بھی میں ان سے بہت پیچھے ہوں ان کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں لیکن میرے پاس یہ اعزاز ہے کہ میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر خبریں پڑھیں ۔یہ وہ نام ہیں کہ جب بھی نیوز کاسٹنگ کی بات کی جاتی ہے تو ان کا نام فوراً سے ذہن میں ابھرتا ہے،میرا خبریں پڑھنے کا تجربہ بہت ہی اچھا رہا آج جو کچھ بھی ہوں اللہ کے کرم کے بعد ماں باپ کی دعائوں اور ان قدآور شخصیات کی وجہ سے ہوں جنہوں نے میرا بھرم رکھا ۔
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ،ان کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنے بیچ میں پائوں رکھنے کی جگہ دی ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خوشی کی بات ہے کہ نیوز کاسٹنگ کا شعبہ ہمیشہ ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے ،اس وقت جو نیوز ریڈروں کی سلیکشن ہوتی تھی وہ ایسے نہیں ہو جاتی تھی۔ نیوز ریڈر کی شخصیت دیکھ کر ان کو منتخب کیا جاتا تھا ۔میں سمجھتی ہوں کہ نیوز کاسٹرز کو تو ہزاروں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے کیونکہ ا ن کی شخصیت عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے ۔
ان کا مزاج سلجھا ہوا اور گفتگو میں شائشتگی ہوتی ہے ۔عشرت ثاقب نے کہا کہ میں 30سال سے خبریں پڑھ رہی ہوں ۔پی ٹی وی والوں نے ہمیں خود سکرین سے ہٹایا،شاید ان کی پالیسی ہو گی یا وہ نئے چہرے لانا چاہتے ہوں گے،لیکن پوری دنیا میں میں نے یہی دیکھا کہجب نیوز کاسٹرز سینئرز یا میچور ہوتے ہیں تو ان کی نہ صرف تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان کی اہمیت پہلے سے زیادہ ہوجاتی ہے لیکن پی ٹی وی سے علیحدگی کی چبھن میرے دل میں آج بھی ہے ۔
اگرچہ ریڈیو پر خبریں پڑھ کر میرا نشہ پورا ہو رہا ہے ۔ریڈیو نے مجھے جگہ دی ہے فیس بک پر لائیو میرا خبرنامہ دکھایا جا رہا ہے ْمجھے فخر ہے کہ میرے خبرنامہ کو سب سے زیادہ ویوز ملتے ہیں ۔جب انسان کسی جگہ پر اتنے سال کام کرتا ہے اور بہت محنت کے ساتھ اپنا نام مقام بناتا ہے تو اسے رخصت بھی باعزت طریقے سے کیا جانا چاہیے تاکہ وہ انسان ذہنی مریض نہ بنے ۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی میرے ادارے کو مجھ سے کوئی شکایت ہوئی ہو کہ میں جھگڑا لو ہوں یا ماحول کو خراب کرتی ہوں ۔
پی ٹی وی ہو یا ریڈیو دونوں جگہوں پر خبروں پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ کوشش کی جا تی ہے کہ ایسی خبر نہ چل جائے کہ جس پہ کل کو معذرت کرنی پڑے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خبر ایک اطلاع ہے جو آپ دوسروں تک پہنچاتے ہیں ۔شخصیت کے اعتبار سے نیوز ریڈر کا کام پارٹی بننا نہیں ہوتا ۔اس کی ذاتی رائے معنی نہیں رکھتی ہے۔جو اطلاع اس تک پہنچے گی اور جو ادارہ چاہے گا وہی چیز آگے پہنچانا اس کا فرض ہے ۔آج نیوز کاسٹنگ کا جو معیار ہے ۔
اس پر بے شک میری رائے زیادہ معنی نہیں رکھتی یا ضروری نہیں کہ میری جو رائے ہے اس سے دوسرے لوگ بھی متفق ہوں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ نمبر ون کی دوڑ میں آج خبروں کا حلیہ بگاڑ دیا جاتا ہے ،تبدیلی اچھی بات ہے ،تبدیلی بہتری کے لئے ہو تو بہت اچھی بات ہے لیکن تبدیلی صرف تبدیلی کے لئے ہو میرا نہیں خیال یہ کوئی بہت اچھی بات ہے مقابلے کی دوڑ میں خبروں کا حلیہ بگاڑنا کہاں کا انصاف ہے ۔خبردرست ہے یا نہیں اس چیز کو بہت زیادہ نظر انداز کیا جا رہا ہے خبر چلا دی جاتی ہے چاہے بعد میں معذرت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
اس وجہ سے اس شعبے کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے ۔چیخنا چلانا نیوز کاسٹنگ نہیں ہے۔عشرت نے مزید کہا کہ آج اردو اور تلفظ کی درست ادائیگی پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے میںپنجابی فیملی سے ہوں لیکن اردو سے بہت محبت کرتی ہوں اور فخر محسوس کرتی ہوں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے ،میں دیکھ رہی ہوں کہ اردو سے پیار ختم ہوتا جا رہا ہے ،ہمارے بچے اردو بولیں تو ہم شرمندگی محسوس کرتے ہیں ۔تلفظ ایک ایسی چیز ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر سیکھا جا تا ہے ہم ہر روز کوئی نہ کوئی نیا لفظ سیکھتے ہیں ۔
کھیلوں ،ملکوں ،سیاستدانوں کے انگریزی میں درست انداز میں نام لینا نیوز کاسٹر کا خاصا ہوتا ہے لیکن آج کل اس پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔نیوز کاسٹنگ بغیر شوق اور محبت کے نہیں کی جا سکتی ہے مجھ سے کوئی نیوز کاسٹنگ کے بارے میں پوچھتا ہے تو میں کہتی ہوں کہ یہ چیز میری رگ رگ میں بسی ہوئی ہے ۔اگر اس کو چھوڑ دوں گی تو لگے گا کہ جیسے میری رگوں سے خون کھینچا جا رہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے ازدواجی زندگی اور کیرئیر میں بھرپور توازن رکھا یہ چیز میں نے اپنے والدین خصوصی طور پر ابا سے سیکھی تھی ۔
میرے ابا جی پنجابی اور سخت گیر مرد تھے لیکن انہوں نے میری والدہ کا بہت ساتھ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ابو ہم سب بہن بھائیوں کو سکول بھیجنے کیلئے جب تیار کرتے تو جوتے تک پالش کر دیا جاتے تھے ۔میں نے اپنے گھر اور کیرئیر پر توجہ دینے کیلئے اپنی سوشل لائف قربان کر دی ،آج بھی میرے ساتھ ایک پانی کی بوتل ہوتی ہے میں کام کے دوران چائے اور پانی نہیں پیا کرتی تھی کیوں کہ مجھے لگتا تھا کہ میرا وقت ضائع ہو گا ،میں خبریں پڑھنے کے لئے ایک گھنٹہ پہلے جایا کرتی تھی آج بھی یہی عادت ہے۔
میں خبریں پڑھنے کے بعد فورا گھر بھاگتی ۔ہماری ڈیوٹی نو سے پانچ بجے تک کی تو ہوتی نہیں ہے۔کبھی رات کی ڈیوٹی تو کبھی دن کی ۔جب میں نے دیکھا کہ میرے بچے نظر انداز ہو رہے ہیں تو میں نے رات نو بجے والا خبرنامہ چھوڑ دیا اور ڈیلی مارننگ ٹرانسمیشن شروع کر دی ۔اس کے لئے میں رات کو اڑھائی بجے اٹھتی تھی بچوں کے ٹفن تیار کرتی ان کا ناشتہ بناتی اس کے بعد کام پر چلی جاتی تھی میرے شوہر نے بھی میرا بہت ساتھ دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی لوگ میری بہت عزت کرتے ہیں۔
انہوں نے مجھے جتنی محبت اور عزت دی ہے میں ان کی بہت زیادہ شکر گزار ہوں ۔میرے سرہانے آج بھی لغت پڑی ہوتی ہے میرے ماں باپ نے تو یہ سب چیزیں میرے اندر نہیں اتاری تھیں میں نے بھی تو سیکھا ہے میں آج بھی شائستہ آپی کو فون کرکے لفظوں کی ادائیگی کیسے کرنی ہے پوچھتی ہوں اور اس چیز میں زرا برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتی ۔اگر شرمندگی محسوس کرتی تو آج کچھ بھی نہ سیکھا ہوتا ۔میں سمجھتی ہوں کہ لفظ میرے پاس امانت ہیں اگر غلط بولوں گی تو میرے سننے والے بھی غلط لفظ بولیں گے ۔
لفطوں سے پیار کریں، لفظ آپ کے منہ سے گریں نہیں بلکہ لفظ آ پ کے منہ سے ایک خوبصورت سی شکل بنا کر نکلیں ۔آخر میں ہم نے ان سے پوچھا کہ کن خبروں کو پڑھ کر دل بہت دُکھا تو انہوں نے کہا کہ جب ہمارے سینئر ساتھی عبدالسلام ٹریفک حادثے میں وفات پا گئے تو اس خبر کو پڑھنا بہت ہی تکلیف دہ تھا اس کے علاوہ ضیاء الحق کا جہاز کریش ہونے کی خبر کو پڑھنا بھی تکلیف دہ تھا ۔میں نے پی ٹی وی پر ملٹری ٹیک اور(مشرف دور) بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔میں نے بہت برس ملک کی خدمت کی ہے لوگ مجھے بے حد محبت کرتے ہیں میری خواہش ہے کہ مجھے پرائیڈ آف پرفارمنس ملے۔