اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے دہری شہریت کیس میں سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے (آج) بدھ کو ذاتی حیثیت اورفوج میں دہری شہریت کے حامل افراد سے متعلق جواب بھی طلب کرلیا۔ منگل کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ
کئی افسروں نے تاحال اپنی دوہری شہریت چھپائی ہوئی ہے، اور ان شخصیات کے خلاف کارروائی ہوگی۔چیئر مین نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) عثمان مبین نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کی ایک ہزار ایک سو 16 افسر غیر ملکی یا دوہری شہریت رکھتے ہیں جبکہ ایک ہزار 2 سو 49 افسران کی بیگمات غیر ملکی یا دوہری شہریت کی حامل ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت رکھنا قانونی طور پر کوئی جرم نہیں انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت والے افراد رکنِ پارلیمنٹ نہیں بن سکتے جبکہ سرکاری افسر کے حوالے سے دوہری شہری کا قانون خاموش ہے، تو کیا اس میں ارکان اسمبلی سے تعصب تو نہیں برتا جا رہا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی حساس دفاتر میں بھی دوہری شہریت کے حامل افسر موجود ہیں، کئی ججز بھی دوہری شہریت کے حامل ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگلے مرحلے میں پاک فوج کے حوالے سے بھی تفصیلات لیں گے اور تفصیلات لے کر معاملہ حکومت کو بھجوایا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کئی سرکاری افسر تو پاکستان کے شہری ہی نہیں ہیں، تاہم اب عدالتی معاون کو فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاملہ عدالت نے دیکھنا ہے یا پھر حکومت کو بھجوایا جائے۔عدالت معاون نے عدالت کو بتایا
کہ 19 ممالک کی دوہری شہریت بطور پاکستانی رکھنے کی اجازت ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت والوں کو بیرونِ ملک وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو بطور پاکستانی حاصل ہوتے ہیں جس پر عدالت معاون نے کہا کہ انہیں حقوق کا علم نہیں ہے۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت والا غیر ملکی ہوگا جس پر عدالتی معاون نے بتایا کہ دوہری شہریت رکھنے والا پاکستانی شہری ہی تصور ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر چلنا ہو گا، قانون سازی اور قانون میں بہتری پارلیمنٹ کا کام ہے، قانون اپ ڈیٹ کرنا عدلیہ کا کام نہیں، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ خود قانون اپ ڈیٹ کریں۔عدالتی معاون نے کہا کہ حساس عہدوں پر تعیناتیوں کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون میں فی الحال رکن قومی اسمبلی کے لیے دوہری شہریت کی پابندی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ
کیا پاک فوج کا سربراہ بھی دوہری شہریت رکھ سکتا ہے جس پر عدالتی معاون نے بتایا کہ دوہری شہریت کے حوالے سے پاک فوج میں پابندی نہیں ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ پاک فوج میں غیر ملکی کی ملازمت پر پابندی ہونی چاہیے، یہ ایک اہم ترین ادارہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب سٹیزن شپ ایکٹ بنا تو ملک ایٹمی طاقت نہیں تھا، اس وقت ایٹمی طاقت ہوتے تو شاید یہ قانون غیرملکی شہریت والوں پر پابندی لگاتا، ماشاء اللہ بعد میں
کسی کو ترمیم کی توفیق نہیں ہوئی، قانون سازی پارلیمنٹ نے کرنی ہے، یہ اہم معاملہ اٹھا کر شاید ہم غلط کررہے ہیں، پارلیمنٹ کو یہ کام پہلے ہی کرلینا چاہیے تھا، ایک پاکستانی سفیر غیر ملکی شہری ہیں، حساس عہدے سے ریٹائر ہو کر ایک شخص متحدہ عرب امارات میں اہم عہدے پر فائز ہو گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ ممکن ہے پاک فوج سے بھی دہری شہریت کے حامل افسران کی تفصیل لیں، یہ تفصیلات سیکرٹری دفاع کے ذریعے لیں گے،
ایک طریقہ کار یہ ہے کہ تمام تفصیلات حکومت کو بھجوائیں، مگر ایسا نہ ہو اسمبلی بل منظور کرے اور سینیٹ مسترد کردے ٗ کارگل معرکہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ممکن ہے دہری شہریت کے حوالے سے کابینہ کو تجاویز بھجوائیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ صدر مملکت کا عہدہ بھی سروس آف پاکستان ہے،
پاک فوج پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہونا چاہیے، کیوں نہ تمام اہم عہدوں کو بھی سروس آف پاکستان قرار دیا جائے۔ عدالتی معاون نے کہا کہ برطانوی وزیر اعظم کہیں نوکری نہیں کر سکتا، پاکستان میں وزیراعظم اور وزرا نوکریاں کرتے ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے (آج) بدھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔