اسلام آ با د (آئی این پی)اسلام آ با د ہا ئی کو رٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے بیان پر تحقیقات کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے، خط میں مطا لبہ کیا گیا ہے کہ میرے بیا ن کر دہ حقا ئق کی تصد یق کے لیے کمیشن بنایا جائے، بینچ کی سر برا ہی ایسے جج سے کروا ئی جا ئے جس نے کبھی پی سی او پر حلف نہ اٹھا یا ہو ،اتوار کو جسٹس شو کت عز یز صد یقی کی جا نب سے چیف جسٹس آ ف پا کستان جسٹس ثا قب نثار کو لکھے جا نے والے
خط میں کہا گیا ہے کہ اپنی گزشتہ روز کی تقریر میں بغیر خوف کے موجودہ صورتحال پر حقائق بیان کیے، جن حقائق کی نشاندہی کی کچھ لوگوں کو اچھے نہیں لگے۔خط میں پیشکش کی گئی ہے کہ جن حقائق کی بات کی ان کی تصدیق کے لیے کمیشن بنایا جائے، پی سی او حلف نہ اٹھانے والے جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے،جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ بھی لکھا کہ کمیشن ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج پر مشتمل ہو اور کمیشن کی تمام کاروائی وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی کے سامنے ہو۔وا ضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نیہفتہ کو راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50 فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ ان سے کہا گیا کہ یقین دہانی کرائیں کہ مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کے ریفرنس ختم کرا دیں گے اور انہیں نومبر کے بجائے ستمبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی لیکن انہیں نوکری کی پرواہ نہیں کیوں کہ جج نوکری سے نہیں بلکہ انصاف، عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔این این آئی کے مطابق پاک فوج نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے
جج جسٹس شوکت عزیزصدیقی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی ادراورں کے وقار اورتکریم کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کر ے جبکہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے پیمرا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا ریکارڈ طلب کرلیا ۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے
گزشتہ روز ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی سے خطاب کرتے ہوئے خفیہ ایجنسی پر عدالتی امور میں مداخلت سمیت سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ خوف و جبر کی فضا کی ذمہ دار عدلیہ بھی ہے جبکہ میڈیا والے بھی گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور سچ نہیں بتا سکتے ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا کہ ہم نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا۔۔
انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50 فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اْن سے کہا گیا کہ یقین دہانی کرائیں کہ مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کے ریفرنس ختم کرا دیں گے اور انہیں نومبر کے بجائے ستمبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی لیکن انہیں نوکری کی پرواہ نہیں کیوں کہ جج نوکری سے نہیں بلکہ انصاف،
عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کے بعد پاک فوج نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ریاستی ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر )کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا گیا جس میں چیف جسٹس سے درخواست کی گئی کہ سچائی جاننے کیلئے ان الزامات کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے پاکستان کے اہم ریاستی اداروں عدلیہ اور انٹیلی جنس ایجنسی پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔پاک فوج کی جانب سے
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ ریاستی اداروں کے تشخص اور ان کی ساکھ کی محفوظ بنانے کیلئے ان الزامات کی تحقیقات کروائی جائیں اور اس کے مطابق کارروائی کی جائے۔ بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا نوٹس لے لیا۔ ترجمان سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے
پیمرا سے فاضل جج کی تقریر کا ریکارڈ طلب کرلیا۔قبل ازیں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی میں ایک کیس کی سماعت کے دور ان اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متنازع بیان کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں ہے تاہم انہوں نے معاملے کا جائزہ لینے کا بھی عندیہ دیا ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ کسی میں جرات نہیں کہ عدلیہ پر دباؤ ڈال سکے،
پھر بھی حقائق قوم کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ اس طرح کے بیان ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہیں تاہم جائزہ لیں گے، کیا قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی اپنے بیان پر تحقیقات کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ
اپنی گزشتہ روز کی تقریر میں بغیر خوف کے موجودہ صورتحال پر حقائق بیان کیے، جن حقائق کی نشاندہی کی کچھ لوگوں کو اچھے نہیں لگے۔خط میں لکھا گیا کہ جن حقائق کی بات کی ان کی تصدیق کے لیے کمیشن بنایا جائے، پی سی او حلف نہ اٹھانے والے جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے لکھا کہ کمیشن ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج پر مشتمل ہو اور کمیشن کی تمام کاروائی وکلاء ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے سامنے ہو۔