واشنگٹن (نیوز ڈیسک ) سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر وہ اس وقت ملک کے صدر ہوتے تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرکے امریکہ کے حوالے کرنے پر رضامند ہو جاتے، بشرطیکہ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے تحت، امریکہ کے ساتھ کوئی سمجھوتا طے پا جاتا غیر ملکی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں ایک وفادار ساتھی کی حیثیت سے امریکہ کا ساتھ دیا ہے،
لیکن امریکہ نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ اسی وقت بڑھایا جب اسے پاکستان کی ضرورت پیش آئی۔اْنہوں نے کہا کہ ’’امریکہ میں موجودہ انتظامیہ کے دور میں پاکستان۔امریکہ تعلقات خراب ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دونوں ملک اختلافات دور کرنے کیلئے مذاکرات کریں،پرویز مشرف نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی وجہ افغانستان کی صورت حال ہے اور امریکہ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان امریکہ کو افغانستان کے حوالے سے ڈبل کراس کر رہا ہے۔ پاکستان کو بھی امریکہ سے شکایات ہیں اور امریکہ کو یہ بات سمجھنی چاہئیے۔دو طرفہ تعلقات کی تاریخ کے حوالے سے پرویز مشرف نے کہا کہ ’’پاکستان نے شروع میں سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی جس سے امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات کا آغاز ہوا۔ تاہم، بھارت کے خلاف 1965 کی جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان پر یہ کہتے ہوئے پابندیاں عائد کر دیں کہ پاکستان نے امریکہ سے حاصل کیا گیا اسلحہ جنگ میں بھارت کے خلاف استعمال کیا۔ یہ پابندیاں 1979 تک جاری رہیں اور پھر سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت پڑی تو دو طرفہ تعلقات ایک مرتبہ پھر بہت اچھے ہو گئے۔ لیکن، 1990 میں جب پاکستان اور امریکہ نے سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکال دیا تو امریکہ نے اپنی آنکھیں پھیر لیں اور اْس نے پریسلر ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں‘‘۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت امریکہ نے پاکستان کی طرف سے خریدے گئے 40 ایف۔ 16 طیارے بھی روک لئے جن کی قیمت پاکستان پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ امریکہ نے اْن ایف۔16 طیاروں کی پارکنگ فیس کا بھی مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ یوں دو طرفہ تعلقات بگڑتے چلے گئے‘‘۔امریکہ پاکستان تعلقات نے 11 ستمبر 2001 کے نیو یارک حملے کے بعد پھر پلٹا کھایا اور دونوں ملک دوبارہ قریبی اتحادی بن گئے۔ اب پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تو اْس نے آنکھیں پھیر لی ہیں اور اب پاکستانی عوام امریکہ کے اس غیر مستقل رویے کو پسند نہیں کرتے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ ’’امریکہ کا مکمل جھکاؤ بھارت کی طرف ہوگیا ہے اور اس بات سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے‘‘۔ اْنہوں نے کہا کہ ’’بھارت افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور یوں امریکہ کی طرف سے بھارت کی طرف مکمل جھکاؤ پر پاکستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے پرویز مشرف نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان امریکہ تعلقات اس وقت خراب ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، اْنہوں نے کہا کہ سابق صدر اوباما کے دور میں دو طرفہ تعلقات بہت اچھے نہیں تھے اور جب صدر ٹرمپ نے امریکہ کی صدارت سنبھالی تو پاکستان کو توقعات تھیں کہ اْن کے دور میں دو طرفہ تعلقات کو از سرنو استوار کیا جا سکے گا۔
لیکن، اس سال کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی ٹویٹ میں پاکستان کی بہت بے عزتی کی جس سے پاکستان میں امریکہ کے خلاف غم و غصے کی کیفیت پیدا ہوئی۔اْنہوں نے امریکہ کی طرف سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتکاروں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے اقدام پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ’’ایسے اقدام صرف دشمن ملکوں کے خلاف کئے جاتے ہیں، دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ نہیں،پرویز مشرف نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان نے جوہری مواد شمالی کوریا اور ایران کو منتقل کیا تھا جو اْنہیں نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ تاہم شمالی کوریا کا جوہری پروگرام سو فیصد پاکستانی مدد پر انحصار نہیں کرتا۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ’’یہ بدقسمتی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان پر تنقید کی جاتی ہے جبکہ بھارت کے خلاف ایسا نہیں ہوتا‘‘ اْنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ اس وقت ملک کے صدر ہوتے تو امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مفاد میں کسی سمجھوتے کے تحت ڈاکٹر آفریدی کو رہا کرنے پر رضامند ہو جاتے۔