اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی، کالم نگار و تجزیہ کار جاوید چوہدری اپنے تازہ کالم میں لکھتے ہیں کہ ہم اگر میاں نواز شریف کی شخصیت اور 2013ءسے 2018ءکے درمیان ہونے والے واقعات کا تجزیہ کریں تو ہم چند نتائج پر پہنچیں گے‘مثلاً میاں نواز شریف فوج کے خلاف ہیں‘ یہ اختلافات جنرل ضیاءالحق کے دور سے شروع ہو گئے تھے‘
جنرل ضیاءالحق میاں نواز شریف کو چودھری صاحبان کے سامنے ڈانٹ دیتے تھے‘ یہ وہ بے عزتی آج تک نہیں بھولے‘ یہ جنرل اسلم بیگ‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ کے ”کردار“ پر بھی دکھی ہیں‘۔جنرل غلام محمد ملک(کمانڈر دس کور) نے 1993ءمیں نواز شریف کے کندھے پر چھڑی رکھ کر کہا تھا ”سٹ ڈاؤن ینگ مین“ اور پھر فوج نے ان سے استعفیٰ لے لیا تھا‘میاں صاحب یہ بھی نہیں بھولے‘ میاں صاحب کے دل پر جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف کے لگائے ”زخم“ بھی ابھی تک موجود ہیں چنانچہ یہ سمجھتے ہیں جمہوریت اور جنرلز دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ نواز شریف حقانی نیٹ ورک ‘لشکر طیبہ اور جیش محمد کا مکمل خاتمہ بھی چاہتے ہیں‘۔یہ سمجھتے ہیں ممبئی اٹیکس ہوں‘ پٹھان کوٹ کا واقعہ یا پھر اڑی حملہ ہو ہم یہ حملے روک سکتے تھے‘ یہ ذاتی محفلوں میں بار بار چین اور روس کا حوالہ بھی دیتے ہیں‘ یہ کہتے ہیں ”مجھے چین اور روس کے صدر نے بھی کہا تھا‘ آپ اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز کو روکیں‘ ہم زیادہ دیر تک آپ کی مدد نہیں کر سکیں گے“ اور یہ سمجھتے ہیں ”ہم جب تک بھارت کے ساتھ اپنے معاملات درست نہیں کر لیتے‘ ہم ترقی نہیں کر سکتے“ یہ بھارت کے ساتھ بارڈرز بھی کھولنا چاہتے ہیں اور تجارتی تعلقات بھی استوار کرنا چاہتے ہیں. میاں نواز شریف فوج سے مقابلہ بھی چاہتے ہیںاورافغان اور انڈین پالیسی بھی بدلنا چاہتے ہیں‘ ان ایشوز پر مریم نواز‘ پرویز رشید اور طارق فاطمی ان کے ساتھ ہیں‘ مشاہد حسین سید بھی اب اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں‘