اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بدسلوکی کیس کا فیصلہ محفوظ کریتے ہوئے حکم دیا کہ جب فیصلہ سنایا جائے گا تو تمام ملزمان ذاتی طور پر عدالت میں موجود ہوں۔ منگل کو قائم مقام چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بدسلوکی
کیس میں سزا پانے والےمختلف افسران کی اپیلوں کی سماعت کی۔سابق آئی جی افتخار حسین کے وکیل خالد رانجھا نے موکل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگی۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا عدالت غیر مشروط معافی تسلیم کرنے کی پابندی ہے؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ معافی قبول کرنا عدالت کا استحقاق ہے۔سابق آئی جی کے وکیل نے کہا کہ عدالت دیکھے معافی نیک نیتی سے مانگی گئی یا نہیں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ تعین کیسے ہو گا معافی نیک نیتی سے مانگی گئی یا نہیں؟وکیل صفائی نے کہا کہ میرے موکل نے پہلی پیشی پر غیر مشروط مانگی تھی۔ جسٹس آصف سعید نے تحریری معافی نامے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا جمع کرائے گئے معافی نامے سے لگتا ہے ایک ہی شخص کی تحریر ہے۔ معافی نامہ میں الفاظ کے سپیلنگ درست نہیں، اگر صدق دل سے معافی مانگتے تو معافی نامہ پڑھ کر غلطی درست کروا لیتے ٗکسی نے معافی لکھ کر دی اور افسران نے دستخط کر دیئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم یہ سمجھنے میں قاصر ہیں کہ چیف جسٹس سے بدسلوکی کیوں کی گئی؟ کس نے حکم دیا؟ کیوں چیف جسٹس کو روکا گیا؟۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیے کہ جب فیصلہ سنایا جائیگا تمام ملزمان ذاتی طور پر عدالت میں حاضری کو یقینی بنائی جائے۔