کراچی(نیوز ڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان(پی آئی بی)کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن نہ لڑنے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں ایک نمائشی سربراہ تھا، مجھے خیرات میں کنونیر شپ نہیں چاہیے۔میں خالد مقبول صدیقی اور بہادر آباد کی ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ اقتدار کی سیاست آپ کو مبارک ہو ۔کل الیکشن میں کوئی گڑبڑ ہوگئی تو سارا ملبہ میرے سر پر ہوگا۔ اگر اقتدار کی سیاست پارٹی کے اندر ہو تو میں اسکا حصہ نہیں بننا چاہتا ہوں۔
میں کارکن بن کر ایم کیو ایم کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوں۔میں کل بھی ، آج بھی اور ہمیشہ ایم کیو ایم کے ساتھ رہوں گا ۔مر بھی جاؤں گا لیکن پارٹی نہیں چھوڑوں گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو پی آئی بی کے ایم سی گروانڈ میں ایم کیو ایم کا جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ تین مہینے سے پارٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے میں خوش نہیں ہوں۔میں شدید صدمے کی کیفیت میں ہوں۔ بہادر آباد کی جانب سیکہا جا رہا ہے کہ اپ کو بحال کرکے کنونیر بنا دیں گے لیکن الیکشن میں ٹکٹ دینے کا اختیار کنونیر کو نہیں دیں گے۔خالد مقبول اس شرط پر تیار ہیں۔دنیا میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ ایک سربراہ نام کا ہوگا ، پارٹء رجسٹرد ہوگی دوسرے سربراہ کے نام سے اور ٹکٹ دینے کا اختیار تیسرے سربراہ کے پاس ہوگا۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ مجھے خیرات میں کنونیر شپ نہیں چاہیے۔کل الیکشن میں کوئی گڑبڑھ ہوگئی تو سارا ملبہ میرے سر پر ہوگا۔اگر اقتدار کی سیاست پارٹی کے اندر ہو تو میں اسکا حصہ نہیں بننا چاہتا ہوں۔میں کارکن بن کر ایم کیو ایم کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوں۔میں کل بھی ، آج بھی اور ہمیشہ ایم کیو ایم کے ساتھ رہوں گا ۔مر بھی جاؤں گا لیکن پارٹی نہیں چھوڑوں گا۔اب ہمیں ایک دوسرے کا فریق یا گروپ بن کر نظر نہ آئیں۔انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات میں ٹکٹ ، سیٹ کی اور کنونیر ، ڈپٹی کنونیر کی لڑائی ہے۔میں خالد مقبول اور بہادر آباد کی ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ اقتدار کی سیاست آپ کو مبارک ہو ۔
میں کارکن کے طور پر خود کو اس سیاست سے الگ کرتا ہوں۔میں عوام سے الگ نہیں ہوسکتا ،میں سیاست سے الگ نہیں ہو رہا ہوں۔میں آج خود کو کارکن کی حیثیت سے پیش کرتا ہوں۔بھائی لندن سے متحدہ کو الگ کرنا ہے تو تئیس اگست کو میں نے متحدہ کو بچایا تھا۔یہ دو تہائی کی بات کرتے ہیں ، اگر میں تئیس اگست کو نہ نکلتا اور اگر اس دو تہائی کا اجلاس کرتا تو تئیس اگست کو کچھ نہ ہو پاتا۔ڈاکٹرفاروق ستار نے کہا کہ بائیس اگست کو کٹنے والی پتنگ کو میں نے تھاما۔ہم نے پارٹی پر قبضہ نہیں کیا پارٹی بچائی۔
آج قبضے کی ڈور ہے۔مجھے کوالٹی چاہئے کوانٹیٹی نہیں چاہیں۔انہوں نے کہاکہ اب میں کھل کر کھیلوں گا۔ وسیم اختر مجھے 9 ارب روپے کا حساب دیں۔تاکہ میں عوام کے سامنے سارا حساب دوں ۔ہم پیپلز پارٹی سے 1500 ارب روپے کا حساب مانگتے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری رابطہ کمیٹی اپنے گوشوارے قوم کے سامنے رکھے بحیثیت کارکن یہ سوال تو پوچھ سکتا ہوں۔کامران ٹیسوری کا مسئلہ نہیں ہے ، اب اقتدار کی بات بھی نہیں ہوگی ۔یہی ہمارا پہلا درس ہے ۔رابطہ کمیٹی اپنے گوشوارے کارکنان کہ سامنے پیش کرے۔
پیپلز پارٹی سے بھی حساب لینگے۔پی ایس پی میں جو لوگ گئے ہیں وہ بھی اپنے گوشوارے کا حساب دیں۔نظریاتی کارکن مجھے فون کرکے روتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماں اور امیدواروں کے گوشوارے عوام کے سامنے رکھنا ہونگے۔نظریاتی کارکن مجھے فون کرکے بولتے ہیں کہ ایک ہوجائیں میں اقتدار کی جنگ سے باہر نکل کر اب کارکن کی حیثیت سے عوام کی خدمت کرنا چاھتا ہوں ۔چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار عوام کی بہتری کے لئے بہت کام کررہے ہیں۔
اس موقع پرتحریک انصاف کے اورنگی ٹاون کے علاقائی ذمہ دار اکرم سمیت دیگر کارکنان نے ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کرلی۔آنے والے انتخابات میں اکرم بھائی ہمارے آزاد امیدوار ہونگے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں ۔انتخابی نشان الاٹ کرانے کے لیے الیکشن کمیشن نے جماعتوں کو دعوت بھی دے دی ہے ۔سیاسی جماعتیں جلسے کر رہی ہیں ، کراچی میں بھی جلسوں کی بہار آئی ہوئی ہے ۔جو 2013میں غائب ہوئے وہ اب دوبارہ کراچی کا رخ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ تنظیمی بحران پر آج مجھے بات کرنی ہے۔
مجھے کارکنان سے صلاح مشورے کرنے ہیں ۔2018 کے انتخابات میں بھی ایم کیوایم کا ووٹ بنک برقرار رہے گا۔کراچی میں جلسہ کرنے والی جماعتیں کس منہ سے کراچی آئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں ساتھیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔اسی وجہ سے ہم متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ہیں۔آج کا اجلاس اہم نوعیت کا حامل ہے۔اسی وجہ سے میڈیا کو آج بلایا ہے ہم بند کمروں میں اجلاس نہیں کرتے۔الیکشن کمیشن سے آنے والے الیکشن کے سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کیے جارہے ہیں۔آج ہم کو ایک فیصلہ کرنا ہے ۔
ٹنکی گراونڈ کے جلسے کے لئے اپنی عزت نفس اور کامران ٹیسوری کی قربانی دی۔انہوں نے کہا کہ ثا لث کی طرف سے یہ رائے آئی تھی دونوں رابط کمیٹی تحلیل کردی جائیں ۔ثالٹ کرنے والوں نے 10 10 رکنی رابط کمیٹی کا فارمولہ دیا تھا۔جب جلسے کا وقت آیا تو اختلافات کو ایک طرف رکھا ۔مخالفین نے ہمارے گڑھ میں ہمیں للکارا تھا۔ہم نے اپنے علیحدہ جلسے کو بھی ملتوی کیا ۔میں بغیر کسی شرط کے بہادر آباد گیا ۔پانچ فروری والی پوزیشن پر بحال کرنے والی بات مجھ سے کی گئی تھی۔میں2 مئی کی رات کو بہادر آباد گیا ۔کوئی شرط رکھ کر نہیں گیا ،
تمام شرائط اور ثالثوں کے فارمولے کو ایک طرف رکھ کر گیا۔بہادر آباد والوں نے کہا تھا پانچ فروری والی پوزیشن پر آجائیں جہاں سے ٹوٹے تھے وئیں سے شروعات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جلسے کے بعد ہم نے مزید 8 دن ضائع کئے۔میں چار سے چھ مرتبہ وہاں ہوکر آگیا ہوں ۔میں نے کہا تھا میڈیا پر کہ میں آیا نہیں ہوں آگیا ہوں۔میرا جملہ تھا کہ میں نہ جانے کے لیے آیا ہوں ۔پانچ فروری کی پوزیشن پر انے کے لیے میں بہادر آباد گیا تھا ۔کچھ معاملات میں آخری اختیار ، عمل داری ، دل سے عزت و احترام یہ معاملہ ہے۔اختلاف صرف میں سربراہی کا ہے کامران ٹیسوری کا نہیں۔
اگر میرے کسی فیصلے سے پارٹی کو نقصان ہو تو میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ اسکا ذمے دار میں ہوں گا اور قوم سے معافی بھی مانگوں گا۔انہوں نے کہا کہ میں چار سے چھ مرتبہ وہاں ہوکر آگیا ہوں ۔میں نے کہا تھا میڈیا پر کہ میں آیا نہیں ہوں آگیا ہوں ۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ نواز شریف نے جو انٹرویو دیا ہے اس سے دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔نواز شریف کا ممبئی حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا بیان افسوسناک ، شرمناک اور ملک کی بنیادوں کو ہلا دینے والا بیان ہے۔نواز شریف نے ملک کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کی سازش کی۔نواز شریف کا بیان ملک دشمنی کی مترادف ہے اسکی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ پہلے اپنے وجود سے پاکستان کی سرزمین کو پاک کریں اور پھر دوسروں کے لیے بیان دیں ۔ایسا لگتا ہے یہ بیان کسی غیر ملکی ایجنٹ نے دیا ہے ۔نواز شریف اور انکے بیان کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔