اسلام آباد (آئی این پی)وفاقی وزیر قومی صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ یہ کاز میرے دل کے بالکل قریب ہے مجھے 69ویں عالمی صحت اسمبلی کے موقع پر 2016ء میں معاونتی طبی مصنوعات کی فہرست کے اجراء کا اعزاز حاصل ہے ۔ اہم ممالک کے تعاون اور حمایت سے اس مسئلے کو 142ویں ایگزیکٹو بورڈ میں لے جا نے میں کامیاب ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اب یہ مسئلہ اسی ماہ ہونے والی71ویں
عالمی صحت اسمبلی میں بھی پیش ہورہا ہے ۔ ہم نے بڑا کام کیا ہے اور ابھی مزید کام کرنا ہے ۔ ہمارا مشن اسی وقت مکمل ہو گا جب معاونتی ٹیکنالوجی کے ہر ضرورت مند کی ان آلات تک رسائی ہو گی۔ یہ بات انہوں نے بحیر�ۂروم خطہ کے مشرقی ممالک میں طبی معاونتی ٹیکنالوجی تک رسائی میں بہتری کے بارے میں خطہ کے ممالک کا مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ ضرورت کے وقت معاونتی ٹیکنالوجی نہ ملنے سے لوگ تنہائی اور غربت کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی لاچاری اور معذوری میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے معاونتی ٹیکنالوجی تک یکساں رسائی ہیلتھ کوریج کا لازمی اور ناگزیر جزو ہونا چاہئیے اور اس کو پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ہدف نمبر3.8کے حصول کی کوششوں میں یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر قومی صحت نے کہا کہ پاکستان نے وزیر اعظم کے اپنے قومی صحت پروگرام میں معذوروں کو بھی شامل کیا ہے۔ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کو معاونتی مصنوعات اور سہولیات تک رسائی ہو گی اور ان میں سے ضرورت مندوں کی وہیل چیئرز ، بیساکھیوں، سفید چھڑیوں، ٹرائی پوڈز،سٹکس اوسماعت کے آلات تک بھی رسائی ہو گی ۔ عالمی اور علاقائی وعدوں کو پورا کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ وزیر قومی صحت نے کہا آبادیوں کی ضروریات کے پیش نظر دیگر ٹیکنالوجیز کی طرح معاونتی ٹیکنالوجی تک رسائی بھی بڑی اہم ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ عالمی اور علاقائی شروعات اور تمام اقدامات اس وقت ہی با مقصد ہوتے ہیں جب ان پر ملکی سطح پر عمل در آمد کیا جائے اس لئے علاقائی ممالک کے مابین ہونے والے اس اجلاس کی سفارشات پر متعلقہ ممالک میں عمل در آمد کیا جانا چاہئیے اور اس موجودہ اجلاس کا بڑا مقصد ہی مجوزہ وژن اور حکمت عملیوں پر ملک کا نکتہ نظر معلوم کرنا ہے تا کہ ایسی رہنمائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
جس پر اس متعلقہ ملک میں اس پر موثر طورپر عملدر آمد ہو سکے ۔سائرہ افضل تارڑ نے کہا خطہ بھر میں معذوروں اور طبی طور پر ضرورت مندوں کو معاونتی آلات ٹیکنالوجی کی فراہمی میں کئی اہم چیلنجز در پیش ہیں جن میں قومی پالیسیوں، پروگرامز اور مالیاتی وسائل کی کمی، جائزوں کی ناکافی ضروریات، محدود اعداد و شماربشمول طریقہ کار معیار اور یکساں تعریف کی کمی شامل ہیں جب کہ تربیت یافتہ انسانی وسائل اور مناسب سروسز کی عدم دستیابی کے چیلنجز بھی در پیش ہیں۔