اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اراکین سینیٹ نے کہا ہے کہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ ناکافی ہے ،زرعی شعبہ کو نظرانداز کیا گیا، ایمنسٹی سکیم سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوئی ،سیاحت کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا، سارا بجٹ اور سارے محاصل ایک صوبے اور علاقے تک محدود نہیں ہونے چاہئیں، ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے کمرشل اتاشیوں کو ٹاسک دیئے جائیں، لیبر قوانین پر عمل کیا جائے۔
پیرکو سینیٹ اجلاس میں بجٹ 2018-19ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ اگر ہم اپنے ملک کے سیاحتی مقامات کو محفوظ بنالیں تو سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا‘ صحت کارڈ بہترین سکیم ہے لیکن اس کے تحت ایسے ہسپتالوں کو شامل کیا جائے جو بہترین ہیں۔ کوئٹہ میں بہت اچھا ایئرپورٹ بنا ہے‘ وزیراعظم نے افتتاح بھی کردیا ہے یہ احسن اقدام ہے لیکن سہولیات میں اضافہ کیا جائے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ گنے کی فصل بڑھی ہے لیکن کپاس کی کم ہوگئی ہے، اعداد و شمار درست پیش نہیں کئے گئے۔ ہر سال سرکلر ڈیٹ کی مد میں رقم بڑھتی جارہی ہے۔ اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ 6 گنا قیمت پر تعمیر ہوا ہے۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ سارا بجٹ اور سارے محاصل ایک صوبے اور علاقے تک محدود نہیں ہونے چاہئیں۔ جہاں کام ہوا ہے وہاں نظر آرہا ہے لیکن دھرتی ماں کو سب کا خیال رکھنا چاہیے۔ بجٹ میں خرابیاں بھی ہیں اور اچھائیاں بھی ہیں۔ عام آدمی کی زندگی میں آسانی آنی چاہیے۔ بجٹ خواہ کیسا بھی ہو ہمیں اپنے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے کام کرنا چاہیے۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ آج بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں ہوتا بلکہ ان سے کچھ لیا جاتا ہے، بجٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار درست نہیں، بھاری بجٹ خسارہ کہاں سے پورا ہوگا۔ سیاحت کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا۔ سینیٹر کودا بابر نے کہا کہ گوادر اور بلوچستان میں پینے کے پانی سمیت بنیادی سہولیات نہیں ہیں،
پورے پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ گوادر اور بلوچستان کو بنائیں گے تو پاکستان بنے گا، بلوچستان والے ترقی کے مخالف نہیں لیکن ہمیں بھی یہ ترقی چاہیے۔ 2004ء میں گوادر کے لئے 25 ارب روپے رکھے گئے تھے‘ ابھی تک اس میں سے 15 ارب کی رقم نہیں ملی۔ میں اس بجٹ کو نہیں مانتا اس کے خلاف واک آؤٹ کرتا ہوں اس کے ساتھ ہی وہ ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ چیئرمین سینیٹ نے حکومت کو ہدایت کی کہ واک آؤٹ کرنے والے رکن کو منا کر ایوان میں لائیں ، جس کے چند منٹ بعد ہی وہ ایوان میں واپس آگئے۔
شبلی فراز نے کہا کہ بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہے۔ ایمنسٹی سکیم سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوئی، ملک کو قرضوں کے دلدل سے نکالنا بہت مشکل ہوگا۔ ہماری جماعت نے جو 11 نکات دیئے ہیں وہ ہماری ترجیحات ہیں۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی وزارت کا برا حال ہے، ہمیں حکومت کے سائز کو کم کرنا ہوگا۔ نجی شعبہ کو مراعات دینا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس اینڈ کلچر کے لئے بہت کم رقم مختص کی گئی ہے۔ سینیٹر بہرہ مند خان نے کہا کہ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ ناکافی ہے۔ 30 فیصد اضافہ کیا جائے۔
نئے بجٹ میں زرعی شعبے کو نظر انداز کیا گیا۔ کھادوں کی قیمت میں کمی کی جائے۔ سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ بجٹ بہترین ہے‘ عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔ ایکسپورٹس بڑھانے کے لئے کمرشل اتاشیوں کو ٹاسک دیئے جائیں۔ لیبر قوانین پر عمل کیا جائے۔ اجلاس کے دوران عوامی اہمیت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا ہے کہ نئی انتخابی حلقہ بندیوں میں شیرانی اور موسیٰ خیل کے علاقوں کو ضم کردیا گیا ہے جو زیادتی ہے۔ شیرانی اور موسیٰ خیل کے عوام زیادتی کو قبول نہیں کریں گے اور اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ 11 مئی کو دو اہم شاہراہیں بند کی جائیں گی۔ بعض سیاسی جماعتیں سازباز کرکے جمہوریت کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ تعصب کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی گئیں جن پر ہمیں اعتراض ہے۔ بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس (آج) منگل سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔