اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو ججز سے سرکاری رہائش گاہیں خالی کروانے سے روک دیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں ماتحت عدلیہ کے ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کے کیس کی سماعت ہوئی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 33 ججز کی درخواست کی سماعت کی۔ عدالت عالیہ نے وزارت ہائوسنگ کا 28 مارچ کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے حکم دیا کہ
آئندہ سماعت تک رہائش گاہیں واپس نہیں لی جاسکتیں۔واضح رہے کہ 2008 میں وزارت ہاؤسنگ نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کو سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کی تھیں جبکہ اب ان ججز سے رہائش گاہیں خالی کروانے کیلئے انہیں نوٹس بھیجا گیا تھا۔سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وفاقی وزیر اور سیکرٹری ہائوسنگ اینڈ ورکس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، وزارت ہائوسنگ کا ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن بدنیتی پر مبنی ہے، عدالت نے وزیر ہاؤسنگ، سیکریٹری ہاؤسنگ اور اسٹیٹ افسر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ججز قانون کے تحت سرکاری رہائشیں رکھنے کے اہل ہیں.کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کردی گئی. خیال رہے کہ حکومت نے ماتحت عدالت کے جن ججز کو رہائش گاہیں خالی کرنے کیلئے نوٹس بھیجا تھا ان میں نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کرنے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اور انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند بھیک شامل ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وفاقی وزیر اور سیکرٹری ہائوسنگ اینڈ ورکس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، وزارت ہائوسنگ کا ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن بدنیتی پر مبنی ہے، عدالت نے وزیر ہاؤسنگ، سیکریٹری ہاؤسنگ اور اسٹیٹ افسر کو
نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ججز قانون کے تحت سرکاری رہائشیں رکھنے کے اہل ہیں.کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کردی گئی. خیال رہے کہ حکومت نے ماتحت عدالت کے جن ججز کو رہائش گاہیں خالی کرنے کیلئے نوٹس بھیجا تھا ان میں نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کرنے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اور انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند بھیک شامل ہیں۔