اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کی ایسی جماعت جس کو پاکستان میں انتشار کیلئے عالمی طاقتوں اور پاکستان کے بدترین دشمنوں کی سپورٹ حاصل ، سوشل میڈیا اکائونٹس بھارت اور امریکہ سے چلائے جا رہے ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف)اور پشتونخواہ میپ بھی حمایت میں کھل کر سامنے آگئیں۔ نجی ٹی وی دنیا نیوز کے پروگرام ’ٹونائٹ وِد معید پیرزادہ‘میں پروگرام کے میزبان اور
معروف اینکر معید پیرزادہ نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری ریسرچ کے مطابق مارچ 2018سے قبل منظور پشتین سوشل میڈیا سائٹ پر کہیں نظر نہیں آتا تاہم اب مغربی ذرائع ابلاغ کا ایک بہت بڑا حصہ اسے ایک اہم پشتون نیشنلسٹ لیڈر کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس میں کسی قسم کا شک نہیں اور نہ ہی اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ نائن الیون کے بعد اور خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان 2004اور 2005میں سامنے آئی اس کے بعد فاٹا میں جس قسم کی سیاسی اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال رہی ہے ، جہاں فاٹا کے علاقے کو استعمال کیا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو گمراہ کر کے پشاور اور خیبرپختونخواہ کے علاقوں میں اور پھر پورے پاکستان میں جو دہشتگرد حملے ہوئے ان کا مرکز اور فوکس فاٹا بنا۔ یوں افواج پاکستان کی فاٹا میں موجودگی سامنے آئی اور فاٹا میں سخت ماحول دیکھا گیا اور چیک پوسٹ کا قیام عمل میں آیااور جگہ جگہ لوگوں کو چیک کیا گیااور اس عمل کے دوران ناخوشگوار واقعات پیش آئے جو کہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں۔ ان تمام ناخوشگوار واقعات کے بعد ان کے حل کے متعلق بھی سوچا گیا اور یہ چیز سامنے آئی کہ فاٹا کو ملک کے دیگر علاقوں کی طرح درجہ دیا جائے اور اس مقصد کیلئے 2016کے اوائل میں ہی سرتاج عزیز کی رپورٹ سامنے آئی اور سابق چیف سیکرٹری خیبرپختونخواہ اور پاکستان کے
مایہ ناز سول افسر شہزاد ارباب کااس رپورٹ میں نہایت اہم کردار رہا ۔ اس رپورٹ میں فاٹا کوملک کے دیگر علاقوں کی طرح درجہ دینے اور اسے ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانے کیلئے جو حل تجویز کیا گیا وہ یہ تھا کہ اسے خیبرپختونخواہ میں ضم کر دیا جائے تاکہ اسے فوری طور پر ایک صوبے کا انتظامی ڈھانچہ مل سکے مگر پوری قوم کے سامنے ہے اور سب لوگ جانتے ہیں
کہ پاکستان کی سیاست کے دو اہم کردار ایسے تھے جنہوں نے فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں انضمام کی مخالفت کی ۔ جن میں سے ایک جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دوسرے پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی تھے۔ اور پھر اس کے بعد انہی دونوں شخصیات نے پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک کو کھلم کھلا سپورٹ کرنا شروع کر دیا اورکررہے ہیں۔
جب قلعہ سیف اللہ میں پشتون تحفظ موومنٹ جلسہ کرتی ہے تو پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سابق ممبر قومی اسمبلی نواب ایاز جوگیزئی اس جلسے کے تمام انتظامات کرتے ہیں اور جب پشاور میں پشتون تحفظ موومنٹ جلسہ کرتی ہے تو پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی قیادت ہمیں سٹیج پر نظر آتی ہے۔ بات صرف یہیں تک نہیں ، مغربی ذرائع ابلاغ جو اس علاقے میں سرگرم ہیں
جن میں بی بی سی پشتو سروس، وائس آف امریکہ پشتو سروس ’دیوا‘پشتون تحفظ موومنٹ کی کوریج میں بہت زیادہ سرگرم ہے اور اس کو بہت زیادہ کوریج دے رہی ہے۔ وائس آف امریکہ پشتو سروس ’دیوا‘کا ٹویٹر ہینڈل اس کی ڈی پی (ڈسپلے فوٹو)تک میں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو ڈالا گیا ہے، منظور پشتین کی تصویروائس آف امریکہ ’دیوا‘کی ڈی پی کا حصہ ہے
جبکہ دیگر غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی غیر معمولی انداز اپناتے ہوئے جو کہ میڈیا کی روایت نہیں پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے سربراہ منظور پشتین کو ہائی لائٹ کر رہے ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سوشل میڈیا پر موجود ہینڈلز کو امریکہ اور بھارت سے آپریٹ کیا جا رہا ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ایک سوشل میڈیا سائٹ پر امریکی سروس پرووائیڈر اے ٹی این ٹی
کا دکھائی دینا بھی ہے۔ان چیزوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو بیرون ممالک سے کس طرح غیر معمولی طور پرابھارا جا رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے اور احتجاج امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہائوس کے باہر ہونے لگ گئے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے بعد اچانک سامنے آنے والی پشتون تحفظ موومنٹ
نہایت منظم اور پلان سے بھرپور نظر آتی ہے جو کہ کسی بھی نئی جماعت ، تنظیم یا تحریک کے حوالے سے اچنبھے کی بات ہے جبکہ پاکستان مخالف اور اس کےدشمن سمجھے جانی والی شخصیات جن میں طارق فتح جس کا نہ تو کبھی پشتونوں سے کوئی واسطہ رہا وہ بھی اس جماعت کی سپورٹ میں نہایت سرگرم نظر آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موجود ایسے لبرل عناصر جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے مخالف اور فاٹا میں فوجی کشی کے حق میں تھے وہ اب پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت میں بولتے نظر آتے ہیں۔