اسلام آباد (آئی این پی) ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ مجھے ریاست اور آئین کے ساتھ کھڑے ہونے کی سزا دی گئی ہے، اصل سازش ایم کیو ایم پاکستان کو ختم کرنا تھا جس پر آج بھی کام ہو رہا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جسٹس منیر کے تمیز الدین کیس کی یاد دلاتا ہے، جس ایم کیو ایم پاکستان کو میں نے بچایا آج اسی کو کاٹا جا رہا ہے، اصل مسئلہ بانی ایم کیو ایم کو مائنس کرنے کا نہیں بلکہ ایم کیو ایم کو ختم کرنے کا تھا۔
اس سازش پر آج بھی عملدرآمد ہورہا ہے، 2018الیکشن میں ایم کیو ایم کی نشستیں پی ایس پی، ایم ایم اے اور متحدہ کو دینے کا منصوبہ ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ متحدہ کو ختم کرنے کے منصوبے کی کڑی ہے، پتنگ چھین کر آج بہادر آباد والوں کو دے دی گئی ہے۔ پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ آپ کی آمد پر لشکر گزار ہوں، میرے ساتھ میرے کافی ساتھی موجود ہیں، میری رابطہ کمیٹی کے اراکین، قومی اور صوبائی اسمبلی اراکین بھی ہیں، ایک اہم فیصلہ الیکشن کمیشن نے دیا ہے، مولوی تمیز الدین خان کا فیصلہ جسٹس منیر نے دیا تھا اور بھی بہت سے عدالتی فیصلے آج تک یاد کئے جاتے ہیں، جسٹس منیر کے فیصلے کی طرح جسٹس (ر) سردار احمد رضا اور ان کی چار رکنی الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی پاکستان کے انتخابی عمل کے حوالے سے ایک سیاہ فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا، یہ ایک سیاہ باب کا اضافہ ہے تاریخ میں، یہ انتہائی غیر منصفانہ اور غیر آئینی فیصلہ ہے، پاکستان کی انتخابی تاریخ میں اس سے پہلے انٹرا پارٹی اختلاف پر کسی الیکشن کمیشن نے آج تک کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا لیکن آج پہلی بار دیا گیا ہے، یہ الیکشن کمیشن کا کام ہی نہیں ہے، جسٹس وجیہ کے کیس میں کہا کہ انٹرا پارٹی اختلاف ہے اور ہم فیصلہ نہیں کر سکتے لیکن ہمیں گھر بھیج دیا گیا ہے، اکبر ایس بابر کے مقدمے پر بھی کہا گیا کہ انٹرا پارٹی میں ہمارا کام نہیں ہے، پارٹی کے اندرونی جھگڑوں میں الیکشن کمیشن نے کبھی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ان کا اختیار ہے۔
آج فیصلہ کیسے کیا گیا، درخواست کو مسترد کیا جانا چاہیے تھا کنور نوید بھائی کی، ان کی تینوں درخواستیں منظور کی گئیں، یہ فیصلہ پہلے سے طے شدہ تھا، اس فیصلے کے محرکات آپ کو بتاتا ہوں، مجھے 23اگست کو الطاف حسین کے سامنے کھڑے ہونے کی سزا دی گئی، آئین پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کی سزا دی گئی، مسئلہ الطاف کو مائنس کرنے کا نہیں، ایم کیو ایم کو ختم کرنے کا تھا، جس پر آج بھی کام ہو رہا ہے۔
آج کا فیصلہ بھی اس کی ایک کڑی ہے، 2018کے الیکشن میں ووٹوں کی تقسیم کے ذریعے ایک نمائندہ جماعت کی بجائے سیٹیں پی ٹی آئی، کچھ پی ایس پی، کچھ ایم ایم اے اور بچی کھچی بہادر آباد والوں کو دی جانے کا پلان ہے، ایم کیو ایم کے ووٹرز سے پتنگ چھین کر بہادر آباد والوں کو دی گئی ہے، جن کے ساتھ عوام کھڑی نہیں ہے، 2018میں ایم کیو ایم کی سازش کو ختم کرنے کے منصوبے کو آج آگے بڑھایا گیا ہے۔
مقصد ایم کیو ایم کو ختم کرنا ہے، میں نے ایم کیو ایم کو بچایا تو میرے خلاف منصوبہ بنایا گیا جس پر کام ہو رہا ہے، مائنس الطاف حسین کے بعد مائنس فاروق ستار ہو رہا ہے، یہ غیر آئینی فیصلہ ہے، جمہوری اقدار کو پامال کیا گیا ہے، ساڑھے 9ہزار ووٹ کو غیر آئینی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے الیکشن کمیشن؟پر المیہ ہے، اگر الیکشن کمیشن ایک کے خلاف اور دوسرے کے حق میں فیصلہ دے تو باقی سیاسی جماعتیں بھی ہوش کے ناخن لیں ۔
آج میری باری تو کل کسی اور کی بھی ہو سکتی ہے،بار وکلاء اس فیصلے کو غور سے دیکھیں، دال میں کچھ تو کالا ہے، سب کو نظر آ رہا ہے، پی ایس پی کے ساتھ الائنس میں مجھے تین لوگوں کو ایڈرس کرنا پڑا تھا، میں نے اس الائنس کو ختم کرنے کی بات کی اور کہا تھا کہ نو مور انجینئرنگ ان پولیٹکس، پارٹی کے اندر بھی میری مخالفت ہو رہی تھی جس پر میں نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا، آج کا فیصلہ 9نومبر کی پریس کانفرنس کی بھی سزا ہے، اب میں دیکھتا ہوں۔
ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو کیسے ختم کیا جاتا ہے، مسئلہ میری ایم کیو ایم کی موثر سربراہی کا تھا، مجھے 2018میں پارٹی کو بحال کرانا ہے اور ایم کیو ایم کو صاف ستھری بنانا ہے، میں نے اس وجہ س الطاف حسین کو خیرباد کہا لیکن مجھ پر دبائو رہا۔ دریں اثنا ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی ہیں۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کے ایم کیو ایم کی کنوینر شپ کے حوالے سے سنائے جانے والے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ درخواست میں خالد مقبول صدیقی کو پارٹی سربراہ کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی درخواست دی تھی ۔فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ رابطہ کمیٹی کی دو تہائی اکثریت نے خالد مقبول صدیقی کو کنوینر بنایا ہے ٗالیکشن کمیشن نے درخواست منظور کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کو کنوینر تسلیم کیا ہے۔