اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عمران خان پر کیچڑ اچھالنے اور انہیں بدنام کرنے کیلئے ریحام خان کی کتاب کے بعد ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آنے والی ہے، معروف صحافی ہارون الرشید کا اپنے کالم میں تہلکہ خیز انکشاف۔ ہارون الرشید اپنے کالم میں لکھتے ہیںزمانہ کب کسی کو معاف کرتا ہے کہ عمران خان کو معاف کر دے۔ جب اس نے حریف کو کبھی کوئی رعایت نہ دی تو اس کی امید بھی نہ رکھے۔
یہ ناچیز ان لوگوں میں شامل ہے جس نے انہیں اس شادی سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس طرح کے مشورے، اسی وقت دئیے جاتے ہیں جب تک واقعہ رونما نہ ہو جائے۔ ہو جائے تو کوئی بھی ایسا شخص طعن نہیں توڑتا، گالی نہیں بکتا، جو اقدار پہ یقین رکھتا ہو، جو خاندان کی تقدیس کا قائل ہو۔ ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ ایک ناکام رفاقت کے بعد ایک شب عمران خان نے مجھے فون کیا، اپنے درد کی داستان کہی۔ عرض کیا: مجھ سے تم نے مشورہ کیا ہوتا تو یہ شادی کبھی نہ کرتے۔ اس نے پوچھا کیوں؟عرض کیا فلاح اور فلاح وجوہ کی بنا پر۔ سب لوگ ایک دوسرے کیلئے نہیں ہوتے۔ سب لوگ سب لوگوں کے ساتھ بسر نہیں کر سکتے۔ سید عمر فاروق اعظمؓ نے سدینا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ ایک آدمی اچھا ہوتا ہے مگر بھاتا نہیں۔ ایک آدمی بھا جاتا ہے ، حالانکہ اچھا نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے کبھی عالی جنابﷺ سے پوچھا تھا؟فرمایا: جی ہاں!آپ ﷺ نے ارشاد کیا تھا: روحیں لشکروں کی طرح اتاری گئیں۔ روز ازل جو ایک دوسرے کے شناسا تھے، اس دنیا بھی ایک دوسرے سے مہرومحبت رکھتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: تم میں سے بعض ، بعض سے عداوت رکھیں گے۔ہارون رشید لکھتے ہیں کہ پینتیس برس ہوتے ہیں۔ عمران خان اس حال میں کراچی کے شیرٹن ہوٹل میں داخل ہوا کہ ساڑھے تین گھنٹے گیند پھینکنے کی مسلسل مشق کے بعد اس کا
وزن آٹھ پائونڈ کم ہو چکا تھا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی قطاریں، ہوٹل کے دروازے پر بے چین کھڑی تھیں۔’’شام کو ۔۔۔‘‘اس نے کہا جیسا کہ اس کا مزاج ہے۔ ہوٹل کے سٹاف کو ہدایت کہ کہ کوئی اس کے کمرے میں داخل نہ ہونے پائے۔ کوئی گھنٹی نہ بجائے۔ تعجب ہے کہ ایک آدمی داخل ہوا اور اجازت کے بغیر۔ کمرے کی چٹخنی اس نے کس طرح کھولی ہو گی اور کیوں؟۔۔۔اب بھی کم جذباتی نہیں، اس زمانے ت
و فاسٹ بائولر کا خون بات بات پہ کھولتا تھا۔ آئو دیکھا نہ تائو، اس طویل قامت آدمی کو کپتان نے دیوار پہ دے مارا۔ اس نے اپنا تعارف کرانے کی کوشش کی مگر مشتعل آدمی کو تاب کہاں تھی۔ کچھ دیر میں کرکٹ بورد کے چیئرمین عارف عباسی کی پاٹ دار آواز سنائی دی: تم نے یہ کیا کیا؟عمران تم نے یہ کیا کیا۔ کھلاڑی کو رتی برابر پرواہ نہ تھی۔ اس نے کہا: میں نے ٹھیک کیا اور آئندہ بھی ایسا ہی کروں گا۔
کرکٹ بورڈ کا چیئرمین اس آدمی کا کیا کرتا جو اب ایک لیجنڈ تھا۔ کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا سب سے بڑا کپتان۔ جس کی ریٹائرمنٹ پر پاکستان کے فوجی حکمران کو استدعا کرنا پڑی’’براہ کرم اپن فیصلہ واپس لے لیجئے‘‘۔ دانش و بصیرت تو خیر مگر عزم کا تو وہ ایک کوہ گراں تھا۔ اسے دنیا کا پہلا فری کینسر ہسپتال تعمیر کرنا تھا۔ اسے پاکستان میں عالمی معیار کی پہلی یونیورسٹی بنانا تھی۔
جسے سیاست کے میدان میں ایک کے بعد دوسرے فرعون کا سامنا کرنا تھا۔ ساڑھے تین عشرے قبل جس آدمی کو کرکٹ کے کپتان نے دھتکار دیا تھا، مارا پیٹا تھا۔ اب وہ اس کے خلاف چلائی جانے والی کردار کشی کی مہم کا سب سے اہم سالار ہے۔ کیچڑ اس کے پاس بہت ہے۔ کیچڑ اچھالنے کا خوگر بھی، نقد داد دینے والے بھی بے شمار اور لاتعداد۔۔ تین سال کی آمدن پانچ ارب۔ ابھی کیا ہے ۔
ابھی تو ایک کتاب بازار میں آئے گی۔ ابھی کیا ہے، ابھی ایک فلم یوٹیوب پر جاری کی جائے گی، الیکشن سے چند دن قبل۔ ماہرین نے مہینوں اس فلم پر ریاضت کی ہے۔ کروڑوں روپے اس پر خرچ ہوئے ہیں۔ یہ فلم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ عمران خان دنیا کا غلیظ ترین آدمی ہے۔ جن کے کھربوں خطرے میں ہوں، کروڑوں کی سرمایہ کاری ان کیلئے کیا ہوتی ہے۔ جب کہ حریف کی تذلیل بھی ہو۔
کیا وہ پست ہو جائے گا اور ہار جائے گا۔ عامی کا خیال مختلف ہے: وہ سب پست ہونگے اور سب مارے جائیں گے ۔ یہ مکافات عمل کی دنیا ہے۔ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۔