اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نوازشریف ہمارے لیڈر ہیں، مریم نواز کی لیڈرشپ ماننے کا سوال کبھی سامنے نہیں آیا ٗسابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان (ن)لیگ کے سینئر رہنما ہیں وہ کچھ باتیں ایسی کرجاتے ہیں جو انہیں نجی محلفوں میں کرنی چاہئیں ٗعوام میں نہیں ٗن لیگ اپنی کارکردگی اور بیانیے کی بنیاد پر انتخابات میں کامیاب ہوگی ٗوزیراعظم بننے کا امیدوار نہ پہلے تھا اور نہ اب ہوں ٗآئین میں ترمیم کوئی جماعت اکیلے نہیں کرسکتی ٗ
اٹھارویں ترمیم متفقہ طور پر کی گئی اب اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے ٗعمران خان کی رائے کی مجھے کوئی پروا نہیں ٗنہ اسمبلی آتے نہیں اور نہ انہوں نے مجھے ووٹ دیا تھا ٗحکومت میں رہ کر ایئرلائن چلانا ناممکن ہے ٗہر سال ایئرلائن پر 40 ارب روپے ضائع کرتے ہیں ٗ عام انتخابات وقت پر ہوں گے، اپنی مدت پوری کریں گے ٗپاکستان کا ایل این جی کا کنٹریکٹ دنیا میں سب سے سستا ہے، میری ریڈ لائن ملک کا آئین ہے ۔اتوار کو نجی ٹی وی کو اپنے انٹرویوکے دور ان ایک سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ30 سال سے نواز شریف میرے لیڈر ہیں ان کی ناہلی کی وجہ کوئی خامی نہیں ہے، عوام 2018 ء کے عام انتخابات میں اصل فیصلہ کریں گے اور عوام کا فیصلہ درست ہوگا ۔ ایک سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ میں وزارت عظمیٰ کا پہلے امیدوار تھا نہ اب ہوں ‘ کارکردگی اور بیانیہ کی بنیاد پر عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرینگے ۔ حکومتی امور میں مداخلت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مجھے سات ماہ میں نواز شریف کی جانب سے کبھی کال کرکے نہیں کہاگیا کہ یہ کرو یا یہ کام نہ کرو ،میں ریڈ لائن پار کرنے والا فرد نہیں اور میری ریڈ لائن آئین ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب ہمارے پاس دوتہائی اکثریت تھی
اس وقت بھی فیصلے اتفاق رائے سے کیے۔انہوں نے کہاکہ کبھی وزیر اعظم بننے کی خواہش نہیں کی، ہر اچھے برے وقت میں پارٹی کے ساتھ رہا ،جو لوگ روز جماعتیں بدلتے ہیں ان کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا ۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ انتخابات وقت پر نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ‘جن جماعتوں کا ایک رکن کسی صوبائی اسمبلی میں نہیں ان کے امیدوار اگر کھڑے ہیں تو یہ پارٹی ٹریڈنگ ہے ‘ الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے ‘ ہم اس طرح منتخب ہونے والوں کو بے نقاب کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ چوہدری نثار سے30 سال پرانی وابستگی ہے وہ قومی اسمبلی میں پارٹی کے سینئر رکن ہیں ،ان کا اپنا ایک موقف ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ بعض باتیں کھلے عام کرنے کی نہیں ہوتیں یہ باتیں پارٹی کے اندرکرنی چاہئیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ صدارتی نظام میں پاکستان کے معاملات چلانا ممکن نہیں اور یہ پاکستان کے وجود کیلئے خطرہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم اتفاق رائے سے ہوئی اس وقت ہر جماعت کے پاس
ایک صوبائی حکومت تھی، یہ موقع تھا کہ معاملات درست کئے جاتے ۔ وزیر اعظم نے کہاکہ جو صوبہ محنت نہیں کرے گا وہ ناکام رہے گا ٗپورا پاکستان پنجاب کی کامیابی تسلیم کرتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کی رائے کی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔وزیر اعظم نے کہاکہ میں وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں اپنے گھر میں رہتا ہوں ‘ وزیر اعظم ملک میں کوئی زیادہ تنخواہ نہیں لیتا، وہاں صرف سرکاری ضیافتیں سرکاری خرچے پر ہوتی ہیں باقی اخراجات وزیر اعظم خود کرتا ہے ٗ
میں35 سال سے ٹیکس دے رہا ہوں انہوں نے کہاکہ شیخ رشید میرے سامنے آ کر بات کرے۔ میرے اثاثوں میں سیاست میں آنے کے بعد اضافہ نہیں ہوا ۔انہوں نے کہا کہ طیارہ سازش کیس میں جب ہم کراچی جیل میں تھے تو ہم پر دباؤڈالا جاتا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بنیں، غوث علی شاہ نے بہادری سے اس کا مقابلہ کیا وہ ہمارے پرانے ساتھی ہیں اور وہ خود واپس آئیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اقتدار میں یہ تاثر چھوڑ کے جانا چاہتے ہیں کہ یہ ایک شفاف حکومت تھی
اور اس نے اپنے مینڈیٹ کے مطابق ملک کی خدمت کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت میں رہ کر ائیر لائن چلانا ناممکن ہے ۔پی آئی اے کی نجکاری واحد حل ہے‘وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں مختلف نظام تعلیم رائج ہیں اور طلبا و طالبات اس میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، ان مختلف نظام تعلیم میں کوئی ہم آہنگی پیدا نہ کرنا ناکامی رہی ہے، ہمارے امتحانی نظام کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، میٹرک اور انٹر میں اس کی بنیاد رٹہ پر ہے ،
یہ جدید تعلیم کا حصہ نہیں ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبوں کے پاس ہے، وہ اس پر بات سننے کو تیار نہیں، ہم نے کوشش کی کہ امتحانی نظام یکساں ہو، پہلے امتحانی نظام بہت سخت ہوتا تھا، اس پر قومی اتفاق رائے اور مباحثہ کی ضرورت ہے، میں نے کوشش کی تھی کہ اس کو مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ساری حکومتیں قرض لے کر ہی ترقی کر رہی ہیں، وسائل دوسرے ذرائع سے لے کر ان کو سرمایہ کاری
اور پھر واپس کرنا دنیا میں عام ہے، اگر ترقی کے لئے وقت لگایا جا رہا ہے تو مفید ہے، آج ملک میں ترقی کی شرح 6 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، دھرنے کی وجہ سے سی پیک میں تاخیر ہوئی، پھر پانامہ کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال تھی، ہم نے کوشش کی ، سنبھالا دیا، آج معاملات کنٹرول میں ہیں، ملک ترقی کر رہا ہے۔ اگر یہ عدم استحکام نہیں ہوتا تو ملک مزید ترقی کرتا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس
قرضے لینے کے لئے نہیں جائیں گے، ملک میں سرمایہ کار دوست ماحول ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں پارٹی کے ساتھ ہوں، نواز شریف میرے لیڈر ہیں، مریم نواز عوام میں مقبول ہیں، ان کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں تاہم عوام کے مقبول لیڈر نواز شریف ہیں۔ ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سسٹم میں دس ہزار میگاواٹ بجلی شامل کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی خودکار اسلحہ کے لائسنس نہیں دیئے جاتے۔
ہم نے خود کار اسلحہ پر پابندی کا اعلان کیا تھا، وفاق کی جانب سے دیئے جانے والے لائسنس منسوخ ہو گئے ہیں، ہر شخص کو اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے، ہم اس کو بہتر بنا رہے ہیں، امریکہ میں اسلحہ رکھنے کا حق قنانون میں ہے، خود کار اسلحہ رکھنے کی وہاں اجازت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیلسن منڈیلا میرے نزدیک متاثر کرنے والے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست چھوڑنے کا فیصلہ خود کرنا چاہیے، یہ مشکل فیصلہ ہوتا ہے ، نوابزادہ نصر اللہ کا 80 سال میں بھی بڑا کردار تھا۔
انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کے لئے اپوزیشن سے مشاورت کریں گے، یہ ایسا شخص ہو گا جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، یہ فیصلہ مئی کے آخری ہفتہ میں کریں گے، سینٹ انتخابات کے بعد عام انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم اپنی مدت پوری کریں گے، اگر اسمبلی ایک دن پہلے بھی توڑی جائے تو پھر 90 دن تک انتخابات کرانے ہوتے ہیں اور اگر مدت پوری کرنے پر اسمبلیاں ختم کریں تو پھر 60 دن میں انتخابات ہوں گے۔ ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ایل این جی کی دنیا چھوٹی سی ہے ایل این جی کا کنٹریکٹ دنیا میں سب سے سستا ہے ، بھارت کے مقابلے میں ہمارے معاہدے میں کم نرخ ہیں ۔