لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے 22 جنوری کو ہنگامہ کرنے والے طلباء کے خلاف پہلے مرحلے میں سخت کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے جمعیت کے 12 اور پشتون / بلوچ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 4 طلباء کو مستقلاََ یونیورسٹی سے نکال دیا جبکہ پشتون بلوچ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مزید 6 طلباء کو ایک سال کے لئے یونیورسٹی سے نکالنے کی سزا دے دی۔
دوسری جانب ڈسپلنری کمیٹی نے شواہد کے بنیاد پر کارروائی کے دوسرے مرحلے کا آغازکرتے ہوئے مزید 30 طلباء کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔ یاد رہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہنگاموں میں ملوث طلباء کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرتے ہوئے انہیں یونیورسٹی سے نکال باہر پھینکا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر کی ہدایت پرسینئر پروفیسرز پر مشتمل ڈسپلنری کمیٹی نے انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے۔ ہنگامے میں ملوث طلباء کے خلاف پہلے مرحلے میں یہ کارروائی ٹھوس شواہد بشمول سی سی ٹی وی فوٹیج، عینی و دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے مستقل طور پر نکالے جانے والے جمعیت کے 12 طلباء میں اسامہ اعجاز، منیب فاروق، راحت علی، سکندر کاکڑ، محمد انیب افضل، احمد ذکریا، عبدالبصیر، اسامہ بن شفاعت، ہدایت اللہ، سمیع اللہ خان، ذیشان اشرف، میاں ارسلان اور عارف الرحمن شامل ہیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے مستقل طور پر نکالے جانے والے پشتون اور بلوچ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 4 طلباء میں اسفند یار، عالمگیر خان، نعیم وزیر، پائیدین خان شامل ہیں جبکہ پشتون / بلوچ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ایک سال کے لئے نکالے جانے والے 6 طلباء میں معظم علی شاہ، مقبول لہری، سلمان وزیر، سلمان احمد، وارث خان اور اشرف خان شامل ہیں جبکہ ایک طالبعلم احمد خان کو وارننگ جاری کرتے ہوئے تین ماہ تک زیر نگرانی رہنے کی سزا دی گئی ہے۔
علاوہ ازیں ڈسپلنری کمیٹی نے 5 طلباء پر دس ہزار روپے جرمانے اور تین ماہ تک زیر نگرانی رہنے کی سزا سنائی ہے جن میں عجب خان ، امیر عباس ، عبدالسلام، دولت خان اور ریحان خان شامل ہیں۔ دونوں اطراف کے ایک ایک سابق طالبعلم بلال احمد اور داود خان کو ڈسپلنری کمیٹی نے ’’پرسانا نان گریٹا‘‘ قرار دے دیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈسپلنری کمیٹی نے نکالے جانے والے طلباء کے یونیورسٹی میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ۔پنجاب یونیورسٹی ترجمان کے مطابق متعلقہ طلباء قانون کے مطابق پندرہ روز میں کمیٹی کے فیصلے کے خلاف وائس چانسلر کو اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق چند طلباء نے انضباطی کارروائی سے بچنے کے لئے جعلی دستاویزات پیش کیں تاہم کمیٹی میں ان طلباء کو ہنگامے میں ملوث ہونے کے شواہد دکھائے گئے۔ ترجمان کے مطابق پہلے مرحلے میں 34 طلباء کو نوٹسز جاری کئے گئے تھے جن میں سے 3 طلباء شاہد نواز، احمد جنید اور معاذ احمد کو دستیاب شواہد کے مطابق ہنگامے میں ملوث نہ ہونے پر بری کیا گیا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کسی بھی طالبعلم کے ساتھ کسی قسم کی ذیادتی نہ ہو۔
ترجمان نے کہا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کسی طالبعلم تنظیم کے دباوٗ میں نہیں آئے گی۔ ترجمان نے خبردار کیا کہ انکوائری کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کسی قسم کا غیر قانونی ردعمل ظاہر کرنے والے طلباء کے خلاف حکمت عملی تیار کی جا چکی ہے اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ یونیورسٹی ترجمان نے کہا کہ موجودہ انتظامیہ نے یونیورسٹی کے پر امن تعلیمی ماحول کو سبوتاژ کرنے والے عناصر کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا مصمم ارادہ ہے کہ کیمپس میں امن و امان اور پر امن تعلیمی ماحول کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔