اسلام آباد(آئی این پی ) احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے سلسلے میں قائم کیے گئے نیب ریفرنس کی سماعت کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا جس میں انہوں نے پاناما جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ کا والیم 1 اور 9 عدالت میں پیش کردیا اور احتساب عدالت کو بتایا کہ 1992 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ کے مطابق اسحاق ڈارکے اثاثے 9.1 ملین روپے تھے، 09-2008 میں ان کے اثاثوں کی مالیت 831.6 ملین روپے تک پہنچ گئی۔
اسحاق ڈار کے اثاثوں میں اس عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا۔ پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی جس کے دوران پاناما کیس کے سلسلے میں شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ، ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا نے پاناما جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ کا والیم 1 اور 9 عدالت میں پیش کردیا۔احتساب عدالت کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے واجد ضیا نے بتایا کہ 20 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا، جس کے لیے ایف آئی اے نے میرا نام بھیجا۔انہوں نے بتایا کہ 5 مئی کو سپریم کورٹ نے میری سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی، جس میں اسٹیٹ بینک سے عامر عزیز، آئی ایس آئی سے نعمان سعید، ایم آئی سیکامران خورشید، ایس ای سی پی سے بلال رسول اور نیب سے عرفان نعیم منگی بھی شامل تھے۔واجد ضیا نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو حتمی رپورٹ پیش کی۔انہوں نے بتایا کہ اس دوران اسحاق ڈار سمیت مختلف شخصیات کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔اس موقع پر احتساب عدالت کے جج نے واجد ضیا سے کہا کہ آپ کواپنے کیس میں اسحاق ڈار کیس تک محدود رہنا ہے۔واجد ضیا نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی، بینکوں، ایف بی آر اور الیکشن کمیشن سے ریکارڈ لیا۔انہوں نے بتایا کہ 1992 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ کے مطابق اسحاق ڈارکے اثاثے 9.1 ملین روپے کے تھے جبکہ 09-2008 میں ان کے اثاثوں کی مالیت 831.6 ملین روپے تک پہنچ گئی۔واجد ضیا نے بتایا کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں اس عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا۔واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس میں 28 میں سے 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔