اسلام آباد(این این آئی)وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ امریکہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے ٗہم افغان جنگ میں قربانی کابکرا نہیں بنیں گے ٗ ٹرمپ انتظامیہ کو دھمکیوں کی بجائے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے‘ پاک امریکہ تعلقات میں پیشرفت دھمکیوں اور امداد کی بندش سے نہیں بلکہ جامع اور خوشگوار ماحول میں بات چیت سے ممکن ہوگی ٗافغانستان میں امن ایک جمہوری افغانستان میں مضمر ہے ٗبھارت کا رویہ ناقابل بر داشت ہے ٗ آج بھی چار پاکستانی فوجی شہید ہوئے ہیں ٗ امریکہ پاکستان سے کہتا ہے
بھارت خطرہ نہیں ٗ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑیں گے ٗپاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے ٗ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ نہیں چاہتا ٗ کم از کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھیں گے ٗ کسی کی دھمکی سے ڈرنے والے نہیں ٗقوم دفاع کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہیں ٗہم ایک پرعزم قوم ہیں ٗسرحدوں کی خلاف ورزی مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا کہ ہمارے خطے میں امریکہ 15 سال سے ایک جنگ لڑ رہا ہے‘ گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کو وسعت دی ہے ٗہماری حکومت نے ہمیشہ علاقائی سالمیت اور استحکام کی بات کی ہے ٗہم نے رشین فیڈریشن سے دفاعی معاہدے کے ساتھ ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیٹو اور سنٹو کی رکنیت تھی اب پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہے ٗہماری حکومت سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ دوستی کے لازوال رشتوں کو مزید مستحکم بنانے پر یقین رکھتی ہے ٗچین کے ساتھ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہو رہے ہیں اور دوستی کا یہ لازوال رشتہ گوادر پورٹ اور چین کو سی پیک کے ذریعے ملانے سے مزید مستحکم ہوگا۔ پاکستان اور چین افغانستان کی صورتحال پر یکساں موقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرف سے پاکستان مخالف سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی آرمی چیف کی دھمکی پر پاکستان کی گہری نظر ہے ٗانہوں نے کہا کہ اب تک لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال 1300 خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں جس میں 52 شہید اور 75 زخمی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنے شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ 16 برسوں میں امریکہ نے افغانستان میں کھربوں ڈالر خرچ کئے۔ اس دوران امریکہ کے ہزاروں فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔ 16 برسوں کی فوجی کوششوں کے بعد بھی سلطنتوں کے قبرستان میں کامیابی نہیں ملی اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس کے جواب میں پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قیمتی انسانی جانوں کی قربانی اور بنیادی ڈھانچے کا نقصان ہوا۔ ہم کسی امداد یا مالی فائدے کے لئے اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ہماری سرزمین سے روزانہ 200 پروازیں کی گئیں‘ القاعدہ کے خلاف پاکستان نے سب سے زیادہ موثر کارروائیاں کیں‘ پاکستان نے 30 لاکھ سے زائد افغانوں کی میزبانی کی اور اب بھی کر رہا ہے‘ کیا کوئی اس کی قیمت لگا سکتا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کا پاکستان ایک نیا پاکستان ہے ٗدہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف ضرب عضب ایک بڑا آپریشن تھا جس کے دوران فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں کارروائیاں کی گئیں اور وہاں پر امن قائم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے عالمی امن اور استحکام کے لئے کوششوں میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ پاک بحریہ نے اتحادی افواج کی بحری فورسز کے ساتھ مل کر بین الاقوامی سمندروں میں خدمات انجام دیں۔ امریکہ کی جانب سے امداد کی بندش اور دیگر دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو دھمکیوں کی بجائے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے‘ پاک امریکہ تعلقات میں پیشرفت دھمکیوں اور امداد کی بندش سے نہیں بلکہ جامع اور خوشگوار ماحول میں بات چیت سے ممکن ہوگی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن ‘ خودمختار اور ترقی کرتے ہوئے افغانستان کی خواہش رکھتا ہے۔ افغانستان میں امن ایک جمہوری افغانستان میں مضمر ہے ٗ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے۔ ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی بلکہ اس کے برعکس پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کیں۔ حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے 43.2 فیصد اضلاع افغان حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں‘ اس شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے تاہم بدقسمتی سے اس کا اعتراف کرنے کی بجائے پاکستان پر الزام تراشی کا آسان راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی اور پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب سے الزام تراشی کا راستہ بند ہو جائے گا۔ پاکستان نے اپنی طرف سے سرحدی انتظام کو موثر بنانے کے لئے جامع اقدامات کئے ہیں ٗ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سٹریٹجک بات چیت کا موثر سلسلہ ختم کیا جس سے باہمی رابطے کا آسان راستہ بند ہوگیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جامع اور خوشگوار ماحول میں مذاکرات سے تمام امور میں بہتری آسکتی ہے۔ افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ ایک محفوظ‘ خودمختار‘ پرامن اور جمہوری افغانستان ہماری خواہش ہے۔ ہم افغانستان کی داخلی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ عمل دوطرفہ ہونا چاہیے اور اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آنا چاہیے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے‘ ہم اپنی سرزمین ‘ اپنی فضاؤں اور اپنے سمندروں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے‘ ہم ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ پاکستان اپنی کم سے کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھے گا۔ خرم دستگیر خان نے کہا کہ پاکستان ایک عظیم قوم ہے‘ ہم نے دہشتگردی اور توانائی کے چیلنجوں پر قابو پا کر اس کا عملی ثبوت دیا ہے۔ اپنی قربانیوں کی ہم کسی سے قیمت نہیں مانگتے۔ میں نے گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ عبید کے گھر کا دورہ کیا ‘ جن کی عمر 21 سال تھی۔ سرحد پار حملوں میں ہمارے افسر و جوان شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم ایک پرعزم قوم ہیں ٗسرحدوں کی خلاف ورزی مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔