لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) 2015ء میں ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کے مطابق قصور میں ہونے والے سانحہ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بہت سے کیسز میڈیا پر آنے کے بعد رپورٹ ہوئے۔ جب والدین سے پوچھا گیا کہ انہوں نے بروقت کیس رپورٹ کیوں نہیں کیاتو انہوں نے اِس کی دو وجوہات بتائیں: ایک تو بدنامی کے خوف سے انہوں نے اسے چھپائے رکھا۔ اور دوسری وجہ یہ کہ جن لوگوں نے پولیس کو اس طرح کے کیسز
بروقت رپورٹ کئے تھے ان کے ساتھ پولیس نے جو سنگدل رویہ اختیار کیا اس سے ان کی دل شکنی ہوئی تھی۔ 2016 میں جنسی زیادتی کے 4139 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 43 فیصد واقعات میں ملوث مجرم متاثرہ بچہ / بچی کے واقف کار تھے جبکہ 16 فیصد کیسز میں زیادتی کرنے والے خاندان کے لوگ تھے۔میڈیا کو بھی اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ اس طرح کے سانحہ کو مکمل ذمہ داری اور قوت کے ساتھ اجاگر کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کا فالو اپ بھی اہم ہے تاکہ مجرموں کی جوابدہی یقینی ہو سکے اور اِن مسائل کا مستقل اور دیرپا حل نکالا جا سکے۔ ہماری صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سکولوں کے نصاب میں اِن حساس موضوعات سے متعلقہ اسباق شامل کریں تاکہ بچے اور والدین ان معاملات کے بارے میں باشعور ہوں اور وہ اپنا تحفظ خود کرنے کے قابل ہو سکیں۔ بطور قوم بچوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور اس برائی سے نبٹنے میں ہم سب کو مل کر مؤثر کردار ادا کرنا ہو گا۔ قصور میں ہونے والے سانحہ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بہت سے کیسز میڈیا پر آنے کے بعد رپورٹ ہوئے۔ جب والدین سے پوچھا گیا کہ انہوں نے بروقت کیس رپورٹ کیوں نہیں کیاتو انہوں نے اِس کی دو وجوہات بتائیں: ایک تو بدنامی کے خوف سے انہوں نے اسے چھپائے رکھا۔ اور دوسری وجہ یہ کہ جن لوگوں نے پولیس کو اس طرح کے کیسز بروقت رپورٹ کئے تھے ان کے ساتھ پولیس نے جو سنگدل رویہ اختیار کیا اس سے ان کی دل شکنی ہوئی تھی۔