منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

طاہرالقادری کی ہنگامی پریس کانفرنس، کاؤنٹ ڈاؤن شروع، انتہائی اقدامات کا اعلان کردیا،کارکنوں کو تیاری کی ہدایت

datetime 7  دسمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی)پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جسٹس علی باقر نجفی انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ کے بعد صوبائی دارالحکومت لاہورکو احتجاجی تحریک کا مرکز بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کارکنوں کو ہدایت کی ہے وہ ہر قسم کی کال کیلئے تیار رہیں،کور کمیٹی اور وکلاء کی آج ( جمعرات) کو منعقد ہونے والی مشترکہ میٹنگ میں آئندہ کے مراحل کے حوالے سے طے کیا جائے گا ، انکوائری ٹربیونل کے ہر پیرے اور صفحے پر ذمہ داروں کا تعین کر دیاگیا ہے ،

وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ خان فوری مستعفی ہوں اور انہیں گرفتار کر کے ٹرائل کورٹ کے استغاثہ میں شامل کیا جائے یا عدالتیں انہیں برطرف کریں ،تمام جماعتوں سے رابطے ہیں اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے سمیت تمام اقدامات مرحلہ وار کئے جائیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور اور وکلاء بھی موجود تھے ۔ ڈاکٹرطاہر القادری نے کہا کہ پریس کانفرنس کے آغاز پر پنجاب حکومت کوخوشخبری دینا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ جماعت کے ذمہ داران او رکارکنان کیلئے بھی ہدایات ہیں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ منگل کے روز ہونے والے حکومتی اجلاس میں میرے 11دسمبر کو عمرے کے سفر کو زیر بحث لایا گیا ہے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ عمرہ نفلی عمل ہے جبکہ شہیدوں کیلئے انصاف فرض درجہ رکھتا ہے اس لئے اب عمر ہ کے سفر کیلئے 11دسمبر کی تاریخ حتمی نہیں ہے اور اس میں حسب ضرورت ہر قسم کی تبدیلی یا کمی پیشی کی جا سکتی ہے کیونکہ فرض کی ادائیگی نفلی ادائیگی پر مقدم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے منتظمین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میر ے کنٹینر کو تیار رکھیں کیونکہ اس میں مظلوموں کی مدد اور نصرت کا بہت سامان موجود ہے۔ ہم مشاورت کے عمل میں ہیں اور کسی وقت بھی کوئی اعلان کیا جا سکتا ہے جبکہ میری کارکنوں کو ہدایت ہے کہ وہ کسی بھی کال کیلئے ہر وقت تیار رہیں اس کے ساتھ میں معاشرے کے تمام طبقات سے کہناچاہتا ہوں کہ مظلوم انسانیت کی مدد کرنا ان پر فرض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جسٹس علی باقر نجفی انکوائری ٹربیونل کی تصدیق شدہ کاپی مل گئی ہے اور ہم اصل رپورٹ تک رسائی کی بھی کوشش کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ انکوائری ٹربیونل میں ہم شامل نہیں ہوئے اورحکومت کی یکطرفہ شہادتوں کو باوجود ٹربیونل نے جتنی موثر اور شاندار رپورٹ مرتب کی ہے اس سے جامع اور بہترین رپورٹ تیار نہیں ہو سکتی تھی اور میں اس پر انہیں بارہا مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اصل رپورٹ اس سے زیادہ طاقتور ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ بہت مضبوط شہادت ہے اور یہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون سمیت دیگر ذمہ داران پر قتل عام اور دہشتگردی کا جرم ثابت اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کے لئے کافی ہے ۔وزراء اور حکومت کی نمائندگی کرنے والوں کا رپورٹ کو ناقص ، نا مکمل کہنا اوریہ کہنا کہ اس میں کسی پر ذمہ داری فکس نہیں کی گئی پراپیگنڈا ، لغو ،غلط ،جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جسٹس علی باقر نجفی نے انکوائری ٹربیونل کے قیام کے بعد حکومت کو تحریری لکھا کہ پنجاب ٹربیونل آرڈیننس کے سیکشن 11کے تحت انہیں با اختیار کیا جائے تاکہ وہ ذمہ داروں کا تعین بھی کر سکیں لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہوم سیکرٹری کے ذریعے اختیار دینے سے انکار کر دیا اور انہیں آخری حد تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں صرف یہ اجازت دی گئی کہ وہ واقعات تک محدود رہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ٹربیونل کی رپورٹ میں واضح لکھا ہے کہ اگر انہیں اختیار دیا جاتا تو وہ چھپے ہوئے سچ کو کھو د کر باہر لے آتے لیکن خاص مقاصد کے تحت ٹربیونل کو اس کا اختیار نہیں دیا گیا جس سے حکومت کے ارادے اور عزائم اچھی طرح آشکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا اصل مقصد انقلاب مارچ ،حکومت کو ہٹانا او رنظام کو بدلنے کی تحریک کو روکنا تھا اور اس کے لئے انہیں کوئی عنوان چاہیے تھا جسے بیرئیر ہٹانے کا نام دیا گیا ۔ 16جون کو رانا ثنا اللہ خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے اپنی آمادگی اور رضا مندی پہنچائی ۔انہوں نے کہا کہ انکوائری ٹربیونل نے لکھا ہے کہ یہ ایک مکمل طو رپر طے شدہ سمجھوتہ تھا کہ کسی بھی شخص نے ٹربیونل کو معلومات نہیں دینی اور یہ بات ٹربیونل کے سمجھ میں آنے والی ہے کہ یہ زبانیں کس نے بند کر رکھی ہے اور اس کا منصوبہ ساز کون ہے ، یہ کوئی خفیہ حکم تھا ،کوئی اس نام کو ظاہر کرنے کے لئے تیار نہ تھا یا یہ کھلا حکم تھا جسے چھپایا جارہا تھا کہ بتایا نہ جائے ۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نواز شریف کی بات کرتے ہیں تو اس پر ہم سے معصومانہ سوال کئے جاتے تھے کہ وہ کیسے ملوث ہو سکتے ہیں۔آئی جی پنجاب کا تبادلہ وفاق کا معاملہ ہے اور ٹربیونل نے اس حوالے سے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے پوچھا اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بتایاگیا کہ ضرب عضب کی وجہ سے بلوچستان سے آئی جی کو پنجاب اور یہاں سے آئی جی کو بلوچستان بھجوایا گیا ۔ٹربیونل نے لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ جواب اطمینان بخش نہیں ہے ۔ مشتاق سکھیرا 14جون کو ٹرانسفر ہو کر یہاں آئے لیکن انہوں نے خون کی ہولی کھیلے جانے تک سرکاری طور پر اپنے عہدے کا چارج نہیں لیا ۔ جبکہ اسی طرح کے معاملات ڈی سی او کی تبدیلی سے متعلق بھی ہیں ۔ ٹربیونل نے لکھا ہے کہ ہمیں جو بتایاگیا ہے لیکن حالات اور واقعات میں اس کے برعکس مخالف سمت میں رائے قائم ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ڈس انگیجمنٹ کا موقف اپنایا جبکہ رانا ثنا اللہ ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ،ہو م سیکرٹری نے وزیر اعلیٰ کے ڈس انگیجمنٹ بارے اپنے بیانات یا بیان حلفی میں ذکر تک نہیں کیا ۔ اگر وزیر اعلیٰ کا یہ حکم تھا تو یہ حکم وہاں کیوں نہ پہنچا جبکہ وزیر اعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں ڈس انگیجمنٹ بارے ایک لفظ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ ٹربیونل نے لکھا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ ہر شخص نے ایک دوسرے کو کور کیا بلکہ سچ بولا نہ سچ تک پہنچنے کا راستہ کھولا ۔ٹربیونل نے کہا ہے کہ تمام حالات اور واقعات کے بعد پنجاب کی تمام اتھارٹیز کی معصومیت مشکوک ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ٹربیونل نے لکھا ہے کہ سارے حالات و واقعات منظر عام پر لے آیا ہوں اور اب ہر شخص اس کا ذمہ داروں کا تعین کر سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ٹربیونل کو ذمہ داروں کے نام لکھنے کا اختیار دیتی تو وہ بھی واضح لکھ دئیے جاتے ۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف اس کے اصل ماسٹر مائنڈ ، رانا ثنا اللہ اس کا نفاذ کرنے والے اور آئی جی اور ڈی آئی سمیت دیگر نے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا ،انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ نے ان پر سو بار ذمہ داری فکس کر دی ہے ، رپورٹ کے ہر صفحے اور پیرے کا اختتام وزیر اعلیٰ پنجاب کے دروازے پر ہوتا ہے ۔ یہ مجرم ہیں انہیں فی الفور گرفتار کیا جائے اور انہیں انسداد دہشتگرد ی عدالت میں چلنے والے استغاثہ میں شامل کیا جائے اور ان پر فرد جرم عائد کیا جائے ،اگر عدالتیں ان کی ضمانتیں لیتی ہیں تو یہ عدالتی معاملہ ہے لیکن انہیں عدالتی پراسس کا حصہ بنایا جانا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری مشاورت کا عمل جاری ہے اور ہر آپشن پر پر مشاورت کریں گے ۔ سب جماعتیں رابطے میں ہیں اور جب وقت آئے گا تو ان کا باہمی تعاون بھی حاصل ہوگا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں ہرگز یہ نہیں کہا کہ ٹربیونل کی رپورٹ قانونی طور پر ثبوت نہیں بن سکتی بلکہ عدالت نے کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج صاحب نے اس کا فیصلہ کرنا ہے ۔ انہوں نے کنٹینر کے اسلام آبادیا لاہور میں چلنے کے حوالے سے کہا کہ قصاص تحریک لاہور سے متعلق ہے اس لئے غالب امکان یہی ہے کہ یہ لاہور میں چلے گا ۔یہ جاتی امراء جائے گا تو بھی میڈیا کو سب سے پہلے معلوم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قتل عام کرانے اور کرنے والوں کو سزا ہو گی، جیلیں ہوں گی اور انہیں پھانسیاں ہوں گی۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…