اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)تحریک لبیک یا رسول اللہ کے ختم نبوتؐ قانون میں ترمیم کے خلاف فیض آباد میں دئیے گئے دھرنے کے خلاف جب آپریشن شروع ہوا تو اس وقت عوام کا غم و غصہ عروج پر پہنچ گیا تھا ۔ راولپنڈی کے کئی نوجوان اپنی مصروفیات چھوڑ کر دھرنے کے شرکا کی مدد کیلئے آن پہنچے ان میں راجہ زوہیب بھی شامل تھا۔ راجہ زوہیب زاہد کا تعلق راولپنڈی کے متوسط کاروباری گھرانے سے تھا،
عشق رسولؐ کے جذبے سے سرشار زوہیب اپنے چچا کے ہمراہ کپڑے کی دکان پر بیٹھتا تھا۔ زوہیب کے والد سٹیشنری کی دکان چلاتے ہیں ۔ زوہیب کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ روزنامہ امت کی رپورٹ کے مطابق زوہیب اسلام آباد میں دھرنا شروع ہونے کے بعد سے بہت بے چین تھا۔ دھرنا شرکا کیخلاف حکومتی کارروائیوں پر اس کو بہت ملال تھا۔ ہفتے کے روز اس نے دکان کی چابیاں ملازمین کے حوالے کیں اور انہیں کہا کہ میں دھرنے میں جا رہا ہوں۔ اگر میں نے خود یہ بات چچا کو بتائی تو وہ اجازت نہیں دیں گے جبکہ میں نبیؐ کی حرمت پر قربان ہونا چاہتا ہوں۔ شاہد عقیل کا کہنا تھا کہ دکان کے ملازموں نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے زوہیب سے پوچھا کہ تم کدھر جا رہے ہو۔ اس نے عجیب سے انداز سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میں عاشق رسول ؐ ہوں اور جب عاشقوں کو بلایا جاتا ہے تو وہ رکتے نہیں ہیں۔ بس مجھے شہید ہونا ہے اور یہی میری تمنا ہے۔ پھر مجھے حیران و پریشان چھوڑ کر وہ چلا گیا۔ شام کو اطلاع ملی کہ وہ شہید ہو گیا ہے۔ شاہد عقیل کا کہنا تھا کہ زیبی بہت ملنسار اور ہمدرد نوجوان تھا۔ راہ چلتے لوگوں کی بھی مدد کرتا تھا۔ وہ ایک سچا عاشق رسول تھا۔ اسلام آباد دھرنے میں جاتے ہوئے اس نے جس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اللہ نے اس کی آرزو پوری کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بھتیجے کے قتل کا مقدمہ حکومت کیخلاف درج کرائیں گے۔
شہید زوہیب زاہد کے بچپن کے دوست مصدق کا کہنا تھا کہ ہفتہ کے روز علی الصبح جب فیض آباد دھرنے کیخلاف آپریشن کی اطلاعات آنا شروع ہوئیں تو میں نے زیبی سے میسنجر کے ذریعے رابطہ کیا۔ ہم دونوں کے درمیان اسلام آباد میں جاری صورتحال پر بات چیت چلی تو زیبی نے بتایا کہ ’’میں دھرنے میں جا رہا ہوں، یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی عقیدہ ختم نبوتؐ پر حملہ کرے اور میں خاموش رہوں۔
میں دھرنے میں شہید ہونے جا رہا ہوں‘‘۔ اس کے بعد میرا اس کے ساتھ رابطہ ختم ہو گیا۔ بعد میں جب ہنگامے شدید ہوئے تو میں نے زیبی کو فون کیا لیکن اس کا نمبر بند جا رہا تھا جس پر مجھے پریشانی لاحق ہوئی۔ میں نے میڈیا میں موجود اپنے کچھ دوستوں سے رابطہ قائم کیا، جنہوں نے تھوڑی دیر بعد بتایا کہ زیبی بینظیر بھٹو ہسپتال میں موجود ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہ شہید ہو چکا تھا‘‘۔
مصدق کا کہنا تھا کہ ’’مجھے جو اطلاعات ملی ہیں، ان کے مطابق زیبی کو مری روڈ پر فائرنگ کے دوران گردن میں گولی لگی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ موقع پر ہی شہید ہو گیا تھا۔ مصدق نے بتایا کہ زیبی جماعت اسلامی یوتھ کا انتہائی فعال کارکن تھا۔ وہ ہمیشہ سچ اور حق کی بات کرتا تھا اور لوگوں کی مدد اور خدمت کیلئے کوشاں رہتا تھا۔ متوسط خاندا ن سے تعلق رکھنے والا زوہیب خدمت خلق
اور اچھے اخلاق و کردار کی وجہ سے راولپنڈی کے علاقے ڈھوک کھبہ سمیت پورے شہر میں جانا پہچانا جاتا تھا۔ ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا۔ اس کا کوئی دوست کسی مشکل یا تکلیف میں مبتلا ہوتا تو وہ تڑپ اٹھتا اور فوراََ مدد کیلئے پہنچ جاتا تھا۔ یہ وجہ ہے کہ اس کے جنازے میں سارا راولپنڈی شہر امڈ آیا تھا اور ہر کوئی اس کا آخری دیدار کرنا چاہتا تھا۔ مصدیق کا کہنا تھا کہ زوہیب میرا ہم عمر تھا۔
ہماری بچپن سے دوستی تھی۔ ہم دوں دن کا بڑا وقت ایک ساتھ گزارتے تھے۔ راولپنڈی شہر ایک ہیرے سے محروم ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی ڈھوک کھبہ راولپنڈی کے امیر محمد عمران کا کہنا تھا کہ زیبی بہت فعال سماجی کارکن تھا۔ وہ جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ میں بھی بہت زیادہ متحرک تھا ۔ اس نے خود تو یوتھ ونگ کے حالیہ الیکشن میں حصہ نہیں لیا، لیکن وہ ایک گروپ کی سرپرستی کرتا رہا تھا۔
جماعت اسلامی اس میں مستقبل کی قیادت دیکھ رہی تھی۔ یہ ان نوجوانوں میں شامل تھا جن سے جماعت اسلامی کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اس کو موقع دینے کیلئے غور کر رہی تھی۔