اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہاہے کہ فیض آباد آپریشن میری نگرانی میں نہیں ہوا ٗ اطلاعات کے مطابق چھ اموات ہوئیں تاہم انتظامیہ کے آپریشن کے دور ان کسی کی موت نہیں ہوئی ٗ ذاتی طورپر انتہائی قدم نہیں اٹھانا چاہتا تھا ٗ پیر کو عدالت میں اپنا موقف پیش کرونگا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق احسن اقبال نے کہاکہ فیض آباد آپریشن میری نگرانی میں نہیں ہوا انہوں نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اور آئی جی نے ہائی کورٹ کے حکم پر آپریشن کیا ۔
احسن اقبال نے کہاکہ اطلاعات کے مطابق چھ اموات ہوئی ہیں تاہم انتظامیہ کے آپریشن کے دور ان کسی موت نہیں ہوئی ٗذاتی طورپر انتہائی قدم نہیں اٹھاناچاہتا تھا ٗ پیر کو عدالت میں اپنا موقف پیش کرونگا ۔ واضح رہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے شرکا کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعدمظاہرین کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا گیا تھا، مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور غلیل کے ذریعے بنٹوں کے استعمال سے ایک پولیس اہلکار شہید 16 رینجراہلکاروں اور 14 شہریوں سمیت متعدد پولیس ا ہلکار زخمی ہو گئے، 400 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہفتہ کو اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کی آخری ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد سیکورٹی فورسز نے آپریشن شروع کردیا جس کے نتیجے میں مظاہرین اور اہلکاروں کے درمیان شدیدجھڑپیں ہوئیں اور علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ آپریشن میں پولیس، ایف سی اور رینجرز کی بھاری نفری نے حصہ لیا، جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ شدید شیلنگ کے بعد مظاہرین منتشر ہونا شروع ہوگئے جبکہ پولیس نے درجنوں مظاہرین کو حراست میں بھی لے لیا۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرین کی جانب سے پتھر اور غلیل کے ذریعے بنٹوں کا بھی استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ مظاہرین نے ایک ایف سی اہلکار کو پکڑ کر شدید تشدد کا
نشانہ بنایا لیکن ساتھی اہلکاروں نے اسے فوری طور پر مظاہرین کے قبضے سے چھڑا لیا۔ اس موقع پر جڑواں شہروں کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے چھٹی پر موجود پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کو طلب کرلیا گیا تھا۔ دھرنے کے مقام پر ایمبولینسز بھی پہنچا دی گئیں جبکہ آپریشن کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔ پولیس پانچ سمت سے کارروائی کرتے ہوئے مری روڈ، راولپنڈی روڈ، کھنہ پل، اسلام آباد ایکسپریس وے، جی ٹی روڈ کی جانب سے پیش قدمی کرکے فیض آباد کو مظاہرین سے خالی کروانے کی کوشش کر رہی تھی،
پولیس کی شیلنگ سے قریب موجود دفاتر میں کام کرنے والوں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مری روڈ پر سکول بند کروا دیئے گئے۔ انتظامیہ کی جانب سے دھرنا ختم کرانے کے لیے آپریشن کرنے پر تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں نے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ جنہوں نے احتجاج کرتے ہوئے سڑکیں بلاک کردیں اور ٹائر نذر آتش کیے۔ سمبڑیال میں مظاہرین نے اسلام آباد آپریشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ٹائر جلاکر سیالکوٹ وزیرآباد روڈ بلاک کردیا۔
راولپنڈی میں دھرنے کی حمایت میں ڈسٹرکٹ بار کے وکلا نے کچہری چوک بلاک کردیا گیا۔ کامونکے اور سادھوکی میں مظاہرین نے اسلام آباد آپریشن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے جی ٹی روڈ بلاک کر دی تھی۔ اس طرح اس آپریشن کی وجہ سے پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا، واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ‘تحریک لبیک یارسول اللہ’کے دھرنے کو 21 روز ہوچکے ہیں، جسے ختم کرانے کے لیے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔
دھرنے کے شرکا وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر بضد تھے جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ سڑکوں پر بیٹھ کر یا دھونس دھاندلی سے کسی سے استعفی نہیں لیا جا سکتا۔ اس کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک بھر میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی نشریات بند کردی گئی تھیں۔ فیض آباد آپریشن میں اداروں کی نقل و حرکت کی فلم چلنے کے بعد وزیر اعظم کی ہدایات پر پیمرا نے نجی ٹی وی چینلز کی نشریا ت بند کر دی تھیں جبکہ دوسری جانب پیمرا کے حکم پر ٹوئیٹر، فیس بْک اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا کے کئی پلیٹ فارمز بھی بند کردیے گئے ہیں لیکن اب ٹی وی چینلز کی نشریات بحال کر دی گئی ہیں اور سوشل میڈیا بھی بحال کیا جا رہا ہے۔