اسلام آباد (آن لائن) نا اہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے معاملہ پر قومی اسمبلی میں اتحادیوں سمیت لیگی ممبران کی بغاوت میں نواز شریف سمیت حکومت کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔قومی اسمبلی اجلاسوں میں اراکین کی حاضری سے متعلق سرکاری دستاویزات میں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں۔ حکومتی اتحادی فنکشنل لیگ کے ایک رکن نے بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔ جبکہ محمود خان اچکزئی
کی جماعت کی صرف ایک خاتون رکن نے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ محمود خان اچکزئی اور عبدالقادر اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے 19ارکان نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اے این پی کا ایک جے یو آئی کے چار اور بی این پی کے ایک رکن نے اجلاس میں شریک نہ ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ پیپلز پارٹی کے 5پی ٹی آئی کے 2اور 5آزاد ارکان بھی ایوان میں نہیں آئے۔ ن لیگ کے نوابزادہ مطلوب ، نجف عباس سیال ، رانا عمر نزیر خان،چوہدری بلال ورک، سکندر حیات بوسن، قاسم نون، رضا حیات حراج ، طاہر اقبال، چوہدری سلطان محمود ہنجرہ اور جعفر لغاری ووٹ دینے نہیں آئے۔ فنکشنل لیگ کے پیر صدر الدین شاہ، کاذم شاہ، پیر بخش جونیجو، غوث بخش مہر اور ریٹا شہوانی نے شرکت نہیں کی۔ ن لیگ نے نواز شریف کو پارٹی صدارت کی نا اہلی سے تو بچا لیا۔ ووٹ کم کیوں ہوئے اس اہم سوال نے مسلم لیگ ن میں دراڑ ہونے کی افواہ کو سچ تسلیم کرتے ہوئے اہم سوالات سے پردہ کشائی بھی کی ہے۔ ن لیگ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس معاملے پر گہرائی سے غور کیا گیا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جب منتخب ہوئے تھے تو انہیں 221ووٹ ملے تھے اور اب صرف 163ووٹ مل سکے ہیں۔ 68ووٹ کیسے کم ہوئے ن لیگ سمیت دیگر میں بھی تشویش پائی جا رہی ہے۔ 342کے ایوان میں مجموعی طور پر 278ارکان ایوان میں حاضر تھے
جبکہ 261ارکان نے شرکت کی لیکن 278ارکان نے حاضری لگائی۔ ن لیگ اجلاس میں تمام ارکان کی حاضری اور تفصیلات سامنے رکھی گئیں اور منحرف ارکان کو بہت جلد شوکاز جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔