اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)فیض آباد دھرنے کو آج 17روز گزر چکے ہیں ، حکومت نے دھرنے کی سکیورٹی کیلئے بھاری تعداد میں ایف سی اور پنجاب کانسٹیبلری کے ریزرو دستوں کو جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد پر تعینات کر رکھا ہے۔ ایک طرف بڑی تعداد میں دھرنے کے شرکا اور دوسری جانب بڑی تعداد میں پولیس اور ایف سی کے جوان کھڑے نظر آتے ہیں۔ مگر ان
دونوں مقامات پرسب سے نمایاں فرق سہولیات کا ہے۔ بے سروسامانی کے عالم میں ختم نبوت ؐ کے معاملے پر جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد پر پہنچنے والے تحریک لبیک یا رسو ل اللہ کے قائدین کی قیادت میں دھرنے کے ہزاروں شرکا نہ ہی خوراک کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں اور نہ ہی اس سرد موسم میں انہیں سردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایف سی اور پولیس اہلکاروں کی بھاری تعداد اکتاہٹ اور خوراک کی کمی کے ساتھ سردی کا بھی سامنا کرتی نظر آتی ہے۔ موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے میں جہاں کارکنان کی شرکت کا سلسلہ جاری ہے وہیں مخیر حضرات کی جانب سے دھرنے کے شرکا کیلئے کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی بھی جاری ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد سردی میں اضافے کے پیش نظر شہری دھرنے کے شرکا کیلئے بستر، کمبل، رضائیاں اور ٹینٹ فراہم کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی راولپنڈی شہر سے ایک مخیر شخص نے شرکائے دھرنا کیلئے 70نئی رضائیوں کا تحفہ بھجوایا۔ دھرنا انتظامیہ کے مطابق مذکورہ شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔ دھرنے کے شرکا کیلئے درجنوں لوگ روزانہ گھروں سے کھانا پکا کر لاتے اور دھرنے میں تقسیم کرتے ہیں جبکہ شرکا دھرنا کیلئے ایک مستقل لنگر کا بھی انتظام ہے جسے ہر نماز کے بعد
کھول دیا جاتا ہے اور شرکا جب چاہیں وہاں سے کھانا حاصل کر کے کھا سکتے ہیں۔ کھانے کی تقسیم کے دوران شرکا بہترین نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے حصے کا کھانا حاصل کرنے کیلئے قطار بنا کر اپنی باری پر کھانا حاصل کرتے ہیں اور اس دوران کسی قسم کی دھکم پیل یا بدنظمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ کھانے کی قطاروں میں کھڑے کارکنان وقتاََ فوقتاََ دھرنے کے سٹیج سے بلند کئے
جانے والے نعروں کا جواب بھی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہری اپنے طور پر چائے، کشمیری چائے، بادا، کھجور اور دیگر اشیا لے کر آتے ہیں جو دھرنے کے شرکا میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ عشا کی نماز کے بعد دھرنے میں قہوے کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں اور رات بھر دھرنے کے شرکا کو گرم قہوہ میسر رہتا ہے۔ شرکا کا کہنا ہے کہ دھرنے کے دوران انہیں انواع و اقسام کے کھانے اور میوہ جات دستیاب ہیں
اور یہ ختم نبوت دھرنے کی برکت ہے کہ ایک کھانا ختم نہیں ہوتا تو دوسرا پہنچ جاتا ہے۔ دوسری جانب دھرنا کی سکیورٹی پر معمور ایف سی اور پنجاب کانسٹیبلری کے جوانوں پر اکتاہٹ اور پژمردگی کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں اور مناسب سہولیات نہ ملنے کے باعث وہ بددلی کا شکار ہو چکے ہیں۔ نجی ٹی وی ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں جاری مذہبی جماعت کے دھرنے نے
وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے اخراجات میں اضافہ کردیا ہے جس کے باعث اخراجات میں ایک کروڑ 20 لاکھ روپے تک اضافہ ہوگیا ہے تاہم دھرنے کے مزید جاری رہنے پر اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد پولیس فورس کو شہر میں اپنی خدمات کی انجام دہی کے لیے ارا کرنے میں تاخیر ہوچکی ہے جبکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اور پنجاب کانسٹیبلری (پی سی)
کے ریزرو دستوں پولیس کی جانب سے دی جانے والی سہولیات کے لیے بھی رقم ادا نہیں کی گئی۔تاہم پولیس افسران کی جانب سے مسلسل اعلیٰ افسران کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا جارہا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارتِ خزانہ کی جانب سے اسلام آباد پولیس کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو اس وقت وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کی تعداد میں
اضافہ کردیا گیا تھا جب تحریک لبیک پاکستان کے اشرف جلالی گروہ نے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیا تاہم اسے بعد میں 3 نومبر کو ختم کردیا گیا تھا۔بعد ازاں 7 نومبر کو اسی تنظیم کے ایک اور گروہ نے خادم حسین رضوی کی سربراہی میں وفاقی دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کی اور فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے دیا جو ابھی تک جاری ہے۔ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس،
ایف سی اور پی سی کے کھانے کا بل 55 لاکھ تک پہنچ گیا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں اہلکار حالات کے مطابق تعینات ہیں تاہم ذرائع نے بتایا کہ اوسطاً ایک شفٹ میں 3 ہزار سے 7 ہزار تک اہلکار موجود ہوتے ہیں۔مزید براں پولیس نے سیکیورٹی کے پیش نظر سڑکوں کو بند کرنے کے لیے 200 کنٹینر کرائے پر لیے تھے جن کا کرایہ 30 لاکھ روپے سے زائد تک پہنچ گیا ہے۔اس کے علاوہ اسلام آباد پولیس
نے 5 کرین اور 10 ٹرالر کو بھی کنٹینرز کی نقل و حمل کے لیے کرائے پر لیا جبکہ جبکہ 19 پانی کے ٹینکر کو 15 واٹر کینن کو بھرنے اور اہلکاروں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے بھی کرائے پر لیا گیا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ بسوں اور ویگنوں سمیت 40 گاڑیاں بھی سیکیورٹی اہلکاروں کو فیض آباد کے مقام پر ڈیوٹی پر لےجانے پر بھی مامور ہیں، جن کا کرایہ 10 لاکھ سے تجاوز کرچکا ہے۔
اس کے علاوہ ایندھن کا خرچ، ریزرو اہلکاروں کی رہائش اور مظاہرین سے جھڑپ میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کے علاج معالجے پربھی کافی اخراجات آرہے ہیں۔ذرائع کے مطابق سہولیات فراہم کرنے والے دکاندار اور مالکان ادائیگی کا تقاضہ کر رہے لیکن پولیس حکام رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور سہولیات ادھار پر حاصل کی جارہی ہیں۔3 نومبر کو پولیس کی جانب سے حکومت سے 7 کڑور روپے
کی گرانٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ دھرنا کی سیکیورٹی پر آنے والے اخراجات کو برداشت کیا جاسکے۔بعد ازاں ترجیحی بنیادوں پر 7 کروڑ 50 لاکھ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی کوشش کی گئی اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) کے دفتر سے کم سے کم تین بار وزیرِ داخلہ کو یاد دہانی کرائی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اس حوالے سے آئی جی اسلام آباد خالد خٹک سے متعدد مرتبہ
رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔