اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملکی سیاست کیلئے دسمبر کا مہینہ اہم قرار، ن لیگ کی حکومت گرانے کا راستہ ہموار کرنے کیلئے تحریک انصاف، ایم کیو ایم، ق لیگ اور ن لیگ کے چالیس سے پچاس ارکان قومی اسمبلی اچانک مستعفی ہو سکتے ہیں، یہ پلان اگر ناکام رہا تو پلان بی کے تحت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مخالف سیاسی قوتوں کو ایک کر کے انتخابی میدان میں اتارا جائے گا،
روزنامہ امت کی رپورٹ میں انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی رپورٹ کے مطابق ملکی سیاست کے حوالے سے دسمبر کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے اور اطلاعات ہیں کہ مجوزہ قومی یا ٹیکنو کریٹ حکومت اس ماہ تک قائم ہو جائے گی یا پھر اس کے خدوخال بڑی حد تک واضح ہو جائیں گے لیکن یہ سارا عمل کسی غیر آئینی اقدام کے نتیجے میں نہیں ہو گا۔ حالات ایسے ہو جائیں گے کہ موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ناگزیر ہو جائے۔ روزنامہ امت نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کے مختلف مقامات پر چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے سیاستدانوں کے انٹرویوز اور میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے جو کرپشن سے پاک اپنی صاف ستھری سیاست کے حوالے سے معروف ہیں اور ان میں سے بیشتر موجودہ سیٹ اپ کا حصہ نہیں۔ اس عمل کا حصہ بننے والے ایک رکن قومی اسمبلی جس کا تعلق سندھ سے ہے اور جس کا نام رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا گیا کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے چند دیگر سیاستدانوں نے بھی میٹنگز کی ہیں۔ یہ میٹنگز الگ الگ ہوئیں جیسے کسی جاب کے امیدوار سے انٹرویو کا عمل ہوتا ہے۔ سب نے مختلف ہوٹلوں میں قیام کیا۔ ان میں اندرون سندھ کے ایک رکن قومی اسمبلی
بھی شامل تھے۔ ان کا شمار سندھ کے با اثر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ فنکشنل دنوں کے ٹکٹوں پر مختلف الیکشنوں میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ سندھ میں صوبائی وزیر رہنے والے ایک سینئر سیاستدان کو بھی بلایا گیا تھا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے دو سابق وزرائے اعلیٰ کو بھی وفاقی دارالحکومت میں جاری ان سرگرمیوں میں مصروف دیکھا گیا۔
یہ سب اب واپس آچکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں بلوچ کمیونٹی کے سب سے با اثر سیاستدان اور چھ بار صوبائی اسمبلی سے منتخب ہونے والے ایک دوسرے معروف سیاستدان کے علاوہ چند دیگر سیاستدانوں کو دوسرے مرحلے میں بلایا گیا ہے۔ سندھ کے ایک ایسے سینئر رکن قومی اسمبلی کو بھی کال کیا گیا ہے جو تین بار پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔
چشم دید ذرائع کے مطابق ایک طرف صوبہ سندھ کے سیاستدانوں کے انٹرویوز چل رہے ہیں اور دوسری طرف پنجاب کے سیاستدانوں کے ساتھ میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ سارا عمل علیحدہ علیحدہ ہو رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ سیٹ اپ میں زیادہ نمائندگی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ٹیکنو کریٹس کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان میں اچھی شہرت کے حامل سابق ریٹائرڈ ججز ،
وکلا، سابق فوجی افسران، سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہیں۔ چونکہ ٹینکو کریٹ حکومت میں ارکان کا انتخاب پارلیمانی تجربے کے بجائے اپنے اپنے شعبوں میں ان افراد کی ٹیکنیکل مہارت اور بیک گرائونڈ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے، لہٰذا زیادہ تر ایسے لوگوں سے ہی رابطہ کیا گیا۔ ان میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق جسٹس بھی شامل ہیں جنہوں نے پی سی او پر حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
انہیں صوبائی حکومت میں کسی اہم عہدے پر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبے کی وزارت اعلیٰ سندھ کے اس با اثر سیاسی خاندان کے فرد کے پاس جا سکتی ہے جس کی فیملی کا ایک ایم پی اے ماضی میں بھی وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھال چکا ہے۔ اس سیاسی خاندان کا حلقہ پنوں عاقل سے ٹچ ہوتا ہے اور عربوں کو شکار گاہیں فراہم کرنے میں بھی معروف ہے جبکہ اس وقت صوبے کا سب سے بڑا زمیندار بھی یہی خاندان ہے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز مرحوم جتوئی کو حاصل تھا۔
وزارت اعلیٰ کے حوالے سے دوسرا مجوزہ آپشن سندھ میں اپنے بلوچ قبیلے کی شاخ کی سربراہی کرنے والے سینئر سیاستدان کا ہے۔ دوسری جانب کوئٹہ اور پشاور میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ یہاں بھی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ افراد کی ٹریننگ کا سلسلہ پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق چونکہ سیاستدانوں کو پارلیمانی تجربہ ہوتا ہے لہٰذا سب سے
آخر میں ان کو اس عمل کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ مختلف شعبوں کے ٹیکنو کریٹس کو چونکہ امور مملکت کے رموز سکھانے کیلئے ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا انہیں پہلے ہی منتخب کر لیا گیا تھا اور مزید کو منتخب کیا جا رہا ہے۔ بہت سے اپنی ٹریننگ مکمل کر چکے اور متعدد کی ٹریننگ جاری ہے اور دسمبر تک یہ سارا عمل مکمل ہو جائے گا۔ قومی حکومت کیلئے پلان اے اور پلان بی
ترتیب دئیے جا چکے ہیں ۔ پلان اے کا مجوزہ خاکہ یہ ہے کہ اگلے ایک ڈیڑھ ماہ میں حکمران پارٹی کے چالیس پچاس ارکان قومی اسمبلی اچانک مستعفی ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلزپارٹی کے ایم این ایز کی ایک قابل ذکر تعداد بھی ان کی پیروی کرے گی۔ دوسری جانب سندھ اسمبلی ، خیبرپختونخواہ اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی
میں بھی اسی نوعیت کا عمل کرتے ہوئے ارکان کی بڑی تعداد اپنے استعفے پیش کرے گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی ایک بڑی تعداد اس کیلئے تیاری بیٹی ہے۔ جبکہ ان کا ساتھ تحریک انصاف اور ق لیگ کے ارکان دیں گے۔ خیبرپختونخواہ میں یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے جبکہ سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف سمیت
پی پی کے متعدد ارکان بھی مستعفی ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ دوسری جانب بلوچستان میں بظاہر حکومت مسلم لیگ ن کی ہے لیکن وہاں ہمیشہ پس پردہ حکومت چلانے والوں سے سب واقف ہیں لہٰذا مجوزہ پلان پر عمل کرنے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بیک وقت اتنی بڑی تعداد میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے مستعفی ہونے پر ملک میں سیاسی کہرام برپا ہو جائے گا۔
اس طرح کے سیاسی بحران میں دنیا کی کوئی حکومت اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ نتیجتاََ قبل از وقت انتخابات کیلئے نگراں سیٹ اپ قائم کیا جاے گا۔ وہ ان ہی لوگوںپر مشتمل ہو گا جن کی اس وقت ٹریننگ کی جا رہی ہے اور انٹرویوز جاری ہیں۔ یہ نگراں حکومت اگرچہ تین ماہ کیلئے آئے گی لیکن پھر بلا امتیاز احتساب کے عوامی مطالبے کی پیش نظر اس کا دورانیہ تین برس
تک بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ پہلے ملک گیر بلاتفریق احتساب اور پھر انتخابات کرائے جائیں۔ اس سلسلے میں قریباََ ایک ہزار کرپٹ افراد کی لسٹ تیار کی گئی ہے جس میں تمام سیاسی پارتیوں کے بدعنوان رہنما ور بیوروکریٹس شامل ہیں۔ اس صورتحال سے حکمران جماعت کے بعض رہنما بھی واقف ہیں جو سینیٹ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں فوج اور
عدلیہ کے کردار کو کم کرنے سے متعلق ترامیم لانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پلان اے کی ناکامی کی صورت میں پلان بی پر عمل کیا جائے گا پلان بی کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے میدان میں اتارا جائے گا۔ سندھ میں چند پہلے تشکیل دیا جانے والا گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
واضح رہے کہ پیر پگارا کی زیر صدارت 12جماعتی اس اتحاد کو الیکشن کمیشن میں رجسٹر کرانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ ایاز پلیجو الائنس کے سیکرٹری جنرل اور سردار رحیم سیکرٹری اطلاعات مقرر کئے گئے ہیں۔ پلان بی کے تحت پنجاب میں مسلم لیگ ن کے چالیس پچاس ارکان کو جو پہلے ق لیگ کا حصہ تھے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے بے چین ہیں انہیں
چوہدری برادران کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا اور تحریک انصاف سے اتحاد کرا کے مسلم لیگ ن کے خلاف انتخابی میدان میں اتارا جائے گا۔ اسی طرح کی پیش بندی خبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بھی کی جا رہی ہے۔