اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ان دنوں پاکستان میں دہشتگرد تنظیم داعش کے حوالے سے خفیہ ادارے اور سکیورٹی ایجنسیاں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس دہشتگرد تنظیم نے پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے اور ان کو اپنے ساتھ شامل کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی نظر آتی ہے۔ مسلمان نوجوان جو کہ امت مسلمہ کیلئے ہراول دستے کے
طور پر ابھر کر سامنے آسکتے ہیں اور اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی شان وشوکت کو بحال کر سکتے ہیں۔ داعش اور ان جیسی دہشتگرد تنظیمیں دراصل کٹھ پتلیاں ہیں اور اس بات کی دلیل دیتے ہوئے دلیل ڈاٹ پی کے میں سید بن عبدالغفار اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ تاتاری جب بغداد پر قابض ہوگئے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا تو گلیاں خون سے نہا چکی تھیں۔ چن چن کر مسلمان مارے جارہے تھے۔ ان بھیانک حالات میں بچے کھچےمسلمان اپنے بیوی بچوں کو لے کر تہہ خانوں میں چھپ گئے۔ جب علاقہ اور آبادی کے حساب سے لاشیں کم نظر آئیں، توتاتاریوں نے چھپے مسلمانوں کو باہر نکالنے کے لیے ایک مسلمان کو اذان کہنے کا حکم دیا۔ جیسے ہی اذان کی آواز بلند ہوئی، مسلمان حالات کا ادراک کیے بغیر والہانہ انداز میں تہہ خانوں سے باہر آگئے۔ وہ سمجھے کہ حالات نارمل ہوگئے ہیں، لیکن پھر ان کا قتل عام کیا گیا۔تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ مسلمان قوم جذباتیت کی بھی ایک تاریخ رکھتی ہے اور جذباتیت ہمیشہ عقل و خرد سے آگے کی چیز ہے۔ اس چیز کا فائدہ ہمیشہ سے اٹھایا جاتا رہا ہے، کہیں پر ابوبکر البغدادی جیسے لوگ کھڑے کیے گئے تاکہ جن کے اندر جذباتی جنون ہے وہ باہر نکل آئیں، اور ظاہر ہوجائیں۔ کبھی کسی علاقے میں جہادی لیڈر پیدا کیا گیا اور علاقے
بھر سے معصوم اور سادہ لوح نوجوان صرف شکل دیکھ کر ان کی تحریک کا حصہ بنے۔آپ کو یقین نہیں آتا تو فیس بک پر ایک پوسٹ لگائیں جس میں انتہائی جذباتی مواد ہو، تھوڑی دیر ہی میں کونے کھدرے سے کئی لوگ برآمد ہوں گے، جن کو آپ جانتے بھی نہ ہوں گے۔ مگر وہ اپنی عقل سے ماوراء جذباتیت کا کھلے بندوں اظہار کرتے نظر آئیں گے۔ ایسے لوگ ہی نشانہ بنتے ہیں اور
ظاہر ہوجاتے ہیں اور ان کو ٹریپ کرنا ان سے کام لینا آسان ہوجاتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے یہ کام پاکستان میں بھی ہورہا ہے۔ معصوم نوجوانوں کو لسانیت، مسلکیت اور مظلومیت کے مناظر دکھا کر ان کی حساسیت بیدار کرکے ان کی صف بندی کی جاتی ہے۔ اذان دینے والے کی آواز سے دھوکا کھاکر کئی معصوم آج بھی قتل ہوتے ہیں۔ تاتاریت کا یہ ہتھکنڈہ پرانا ہے، سوچ بھی وہی ہے،
انداز بھی وہی ہے، بس شکلیں بدل گئی ہیں۔