اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ اسلام آباد کے زون 4میں 64سکیموں میں سے 50کے قریب ہاوسنگ اسکیمیں جعلی ہیں ۔1993 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلیاں کرکے اسلام آباد کو زون 5 میں تقسیم کیا گیا ۔ ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنونیر کمیٹی سینیٹر کلثوم پروین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں کی گئی تبدیلیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔
ڈائریکٹر ماسٹر پلان سی ڈی اے ظفر اقبال ظفر نے ذیلی کمیٹی کو اسلام آباد کے ماسٹر پلان اور ا س میں کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سی ڈی اے آرڈیننس کے ذریعے قائم ہوا۔ 24مئی 1960کو ماسٹر پلان منظور ہوا۔ جو تین حصوں پر مشتمل تھا۔ 1993میں پنڈی و کنٹونمنٹ کے علاقے کو علیحدہ کرکے اسلام آباد شہر اور اس کے مضافاتی علاقے کو 960کلومیٹر تک محدود کر دیا گیا۔ 200کلومیٹرکاعلاقہ سی ڈی اے کے اختیار میں ہے۔ ماسٹر پلان کا ہر 20سال بعد جائزہ لینا تھا مگر قوانین کے مطابق عمل پیرا نہیں ہو سکا۔ سینٹر کلثوم پروین نے کہاکہ لوگوں نے اپنی خاندانی زمینیں و جائیدادیں فروخت کر کے پلاٹ خریدے تاکہ اپنے خاندان کو گھر فراہم کر سکیں ۔ مگر متعلقہ اداروں کی ناہلی کی وجہ سے لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے معاملات میں فراڈ کیے۔اور لوگوں سے اربوں روپے لوٹ کر فرار ہوگئے ۔ سی ڈ اے جو ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں ان کو ختم کرنیکی بجائے ایسا طریقہ اختیارکرے کہ جعلی سوسائٹیاں قواعدو ضوابط پورے کرکے لیگل سوسائیٹیوں میں تبدیل ہو سکیں ۔ ذیلی کمیٹی نے سی ڈٰ اے سے زون4میں قائم 64ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی تفصیلات طلب کرکے ہدایت کی کہ سی ڈٰ اے ایسا طریقہ کار منصوبہ بندی ذیلی کمیٹی کو پیش کرئے جس کی بدولت ہاؤسنگ اسکیمیں لیگل ہو سکیں ،سی ڈی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کی طرف سے اقدامات کی بدولت اب کسی ہاوسنگ سوسائیٹی کا اشتہار اخبار میں نہیں آسکتا۔
بجلی ، گیس ، پانی کے کنیکشن جعلی سکیمیوں کو فراہم نہیں کیے جاتے جس پر رکن کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ جن لوگوں نے کافی عرصے سے پلاٹ خرید رکھے ہیں اور اس ہاؤسنگ سوسائیٹی میں بے شمار گھر بھی بن چکے ہیں تو انہیں گیس ، بجلی فراہم نہ کرنا زیادتی ہے۔ ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائیکہ جعلی سیکموں کے مالکان کو مجبور کیا جائے کہ وہ متعلقہ سہولیات فراہم کرکے اسے قانونی بنائے ۔ ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے کے ایکٹ کے سیکشن 11کے تحت ماسٹر پلان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
سی ڈی اے آرڈیننس 1960میں منظور ہواتھا بعد میں تحفظ دیا گیا اور ایکٹ کا درجہ حاصل ہوا۔ جس پر کنونیر کمیٹی نے کہاکہ ایکٹ کی منظوری حاصؒ نہیں کی گئی ۔ جو کرنی چاہیے تھی ۔ انہوں نے کہاکہراول ڈیم اسلام آباد کے علاقے پر مشتمل ہے مگر اس کے پانی کو استعمال کرنے کا حق اسلام آباد کو نہیں ہے ، اس حوالے سے ترمیم کی جائے گی ۔
اسلام آباد کی آبادی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے پانی کی ضرورت ناکافی ہو چکی ہے ۔ اور جن لوگوں سے صی ڈٰ اے نے زمین حاصل کی وہ خوار ہو رہے ہیں ۔ انہیں کوئی متبادل جگہ نہیں دی گئی ۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں سینٹر کامل علی آگا کے علاوہ جائنٹ سیکرترٰ کیڈ عالمگیر خان ، ڈائریکٹر ماسٹر پلان سی ڈی اے ظفر اقبال ظفر ، ممبر سی ڈی اے اسد کیانی نے شرکت کی ۔