لاہور(این این آئی) سپریم کورٹ نے ججز اور جنرلز کے احتساب کے لیے دائر درخواست پر اعتراض لگا دیا جبکہ درخواست گزار نے اعتراضات کا جواب عدالت عظمیٰ کی لاہور رجسٹری میں جمع کرادیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست پر اعتراض لگایا گیا کہ ججز اور جنرلز کے احتساب کے لیے درخواست گزار نے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا۔یہ درخواست وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفراللہ خان نے دائر کی تھی۔
بعد ازاں بیرسٹر ظفر اللہ خان نے عدالت کے اعتراضات کا جواب سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جمع کروا دیا۔بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے جواب میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے احتساب کے لیے قائم کی گئی تھی۔سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی جج کو آج تک فارغ نہیں کیا بلکہ ان کو ریٹائرمنٹ پر تمام مراعات حاصل ہوتی ہیں۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ججز اور جنرلز کی حلف برداری میں صادق اور امین کا لفظ موجود نہیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ مقتدر ادارہ ہے جبکہ ججز اور جنرلز کا احتساب پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا آئین کا تقاضہ ہے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے جواب میں کہا کہ قانون کے تحت جج اور جنرل اپنی آمدن اور اخراجات کے اعداو شمار پارلیمنٹ کی احتساب کمیٹی کے روبرو پیش کرنے کے پابند ہیں۔وطن پارٹی کے سربراہ نے عدالت عظمی سے استدعا کی کہ ججز اور جنرلز کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اپنی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات پارلیمانی احتساب کمیٹی کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت دی جائے۔آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی از سر نو تشریح کرتے ہوئے صادق اور امین کا لفظ ججز اور جنرلز کے حلف میں شامل کرنے کے احکامات صادر کیے جائیں۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کے شہری تمام لوگوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ اور سلوک دیکھنا چاہتے ہیں لہٰذاان کی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔