اسلام آباد/لاہور (این این آئی)ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کے لیے دائر درخواست پر سپریم کورٹ کی جانب سے اعتراض لگائے جانے کے بعد درخواست گزار نے اعتراضات کا جواب عدالت عظمیٰ کی لاہور رجسٹری میں جمع کرادیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفراللہ خان کی جانب سے اگست 2017 میں دائر کی گئی درخواست کوبدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اعتراض لگایا تھا کہ ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کیلئے
درخواست گزار نے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیاجس کے بعد بیرسٹر ظفر اللہ خان نے عدالت کے اعتراضات کا جواب سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جمع کروا دیا۔بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے جواب میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے احتساب کیلئے قائم کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی جج کو آج تک فارغ نہیں کیا بلکہ ان کو ریٹائرمنٹ پر تمام مراعات حاصل ہوتی ہیں۔درخواست گزار نے کہاکہ ججوں اور جرنیلوں کی حلف برداری میں صادق اور امین کا لفظ موجود نہیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ مقتدر ادارہ ہے جبکہ ججوں اور جرنیلوں کا احتساب پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا آئین کا تقاضہ ہے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے جواب میں کہا کہ قانون کے تحت جج اور جنرل اپنی آمدن اور اخراجات کے اعداو شمار پارلیمنٹ کی احتساب کمیٹی کے روبرو پیش کرنے کے پابند ہیں۔وطن پارٹی کے سربراہ نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ ججوں اور جرنیلوں کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اپنی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات پارلیمانی احتساب کمیٹی کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت دی جائے۔انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی از سر نو تشریح کرتے ہوئے صادق اور امین کا لفظ ججوں اور جرنیلوں کے حلف میں شامل کرنے کے احکامات صادر کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے شہری تمام لوگوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ اور سلوک دیکھنا چاہتے ہیں، لہذا ان کی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔