اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جب جے آئی ٹی بنی تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہیں چاہتے تھے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران اس کا حصہ بنیں، ڈان لیکس میں آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے معاملے پر آرمی چیف نے ہی آگے بڑھ کر معاملہ سلجھایا اور اپنے اوپر ہونیوالی تنقید کو برداشت کیا، ماضی کے آرمی چیفس کے مقابلے
میں نواز شریف کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے زیادہ کسی کے ساتھ اتنی بہترین کوآرڈینیشن نہیں پیدا ہو سکی، سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کی نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اورسابق وزیراعظم نواز شریف صرف 7ماہ اکٹھے کام کرسکے ہیں اور میں یہ دعویٰ کرتا ہوں جس کی نواز شریف کبھی بھی تردید نہیں کرینگے بلکہ وہ میری بات کی تصدیق کرینگے کہ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور انہوں نے کئی آرمی چیفس کے ساتھ کام کیا اور جتنا اچھا ان کا کوآرڈینیشن جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ تھا اس طرح کا کبھی ماضی میں ان کا کسی آرمی چیف کے ساتھ نہیں بن سکا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ ان سات ماہ کے دوران صرف ایک بار نواز شریف کو شکایت کا موقع ملا اور وہ معاملہ ڈان لیکس سکینڈل میں آئی ایس پی آر کی ٹویٹ تھی جو کہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ تھا جبکہ اس معاملہ کو ختم کرنے میں آرمی چیف نے اقدام اٹھایا اور اس ٹویٹ کو واپس لیاجس کی وجہ سے ان پر شدید تنقید بھی کی گئی۔سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ جنرل آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ان سات ماہ کے دور کو اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک جمہوریت
پسند شخص ہیںاور انہوں نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا ہوا ہے۔حامد میر نے پروگرام کے میزبان اور پاکستان کے معروف صحافی عارف نظامی کو اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عارف نـظامی صاحب! آپ کو پتہ ہو گا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جب پانامہ جے آئی ٹی بنی تو اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس معاملے پر
بہت ڈسٹرب تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران اس پانامہ جے آئی ٹی کا حصہ بنیں اور وہ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو اس معاملے میں ایک خط لکھنا چاہتے کہ ہمیں اس سیاسی معاملے میں شامل نہ کیا جائے اور جب انہوں نے اس حوالے سے قانونی رائے حاصل کی تو انہیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 190کی
خلاف ورزی ہو گی اگر پانامہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران کی شمولیت سے انکار کیا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس حوالے سے نواز شریف پر واضح کر دیا تھا کہ سپریم کورـٹ جو بھی فیصلہ کرے گی اس پر آپ نے بھی عمل کرنا ہے اور ہمیں بھی اور انہوں نے اس حوالے سے کسی کی سائیڈ بھی نہیں لی۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کھل
کر سپریم کورٹ پر حملہ کر رہے ہیں مگر انہوں نے اس حوالے سے انہوں نے فوج پر کھل کر اس طرح بات نہیں کی جس طرح ماضی میں بینظیر بھٹو کرتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کافی صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں مگر اس تمام صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے کئی رہنما بالواسطہ یا بلاواسطہ سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ
فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں جو کہ ان کے صبر کا امتحان لینے کے مترادف ہے۔۔۔انہوں نے اس حوالے سے مزید کیا کہا۔۔ویڈیو ملاحظہ کریں!