ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جعلی دستاویزات،وزیراعظم کے بچوں نے انہیں پھر پھنسادیا،سپریم کورٹ کے اعلان نے ملک بھرمیں کھلبلی مچادی

datetime 20  جولائی  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)جسٹس اعجاز الاحسن کا ٹرسٹ ڈیڈ کے مصدقہ ہونے پر اعتراض، دستاویزات تیار کسی اور دن اور تصدیق کسی اور دن کروائی گئیں، تصدیق ہفتے کے دن کروائی گئی، اس دن تو برطانیہ میں چھٹی ہوتی ہے، عدالت کے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے ،سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے نئی دستاویزات اور 17صفحات پر مشتمل اعتراضات جمع کرا دیئے اور استدعا کی ہے کہ عدالت جے آئی ٹی کی رپورٹ اور شواہد کو مسترد کرے,

جبکہ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ منی ٹریل کا جواب اگر بچے نہ دے سکے تو اس کے نتائج عوامی عہدہ رکھنے والے پر مرتب ہوں گے ٗہم ان کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور ہوجائیں گے ٗ جسٹس اعجاز الاحسن نے ٹرسٹ ڈیڈ کے مصدقہ ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ دستاویزات تیار کسی اور دن اور تصدیق کسی اور دن کروائی گئیں، ان دستاویزات کی تصدیق ہفتے کے دن کروائی گئی لیکن اس دن تو برطانیہ میں چھٹی ہوتی ہے جبکہ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاہے کہ عدالت کے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے ٗفی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے ۔پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی چوتھی سماعت جمعرات کو کی ۔ سماعت سے قبل سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم الثانی کا جے آئی ٹی کو بھیجا گیا تیسرا خط بھی سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیاجس میں جے آئی ٹی کو آئندہ ہفتے کے آخر میں دوحہ مدعو کیا گیا ۔حماد بن جاسم کی جانب سے جے آئی ٹی کو یہ خط رواں ماہ 17 جولائی کو لکھا گیا جس میں پہلے بھیجے گئے 2 خطوط کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔اپنے خط میں سابق قطری وزیراعظم نے واضح کیا کہ ان پر پاکستانی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ پاکستان آکر کسی بھی عدالت یا ٹریبونل کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔ساعت کے آغاز پر وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مزید دستاویزات جمع کروائیں،

عدالتی بینچ نے دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے سے قبل میڈیا پر لیک ہونے کے معاملے پر برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے دستاویزات وقت پر جمع کروانے کا کہا تھا۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے اپنے طور پر کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ تمام دستاویزات میڈیا پر زیر بحث رہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میڈیا پر جاری ہونے والی دستاویزات میں ایک خط سابق قطری وزیراعظم کا بھی ہے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا تو میڈیا کو دلائل بھی دے دیتے جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میڈیا پر دستاویزات میری جانب سے جاری نہیں ہوئیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب تک ہم آمدن کا ذریعہ اور منی ٹریل نہیں ڈھونڈ سکے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے واضح کیا کہ لندن فلیٹس کے نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ہونے پر کوئی جھگڑا نہیں ہے اور موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالک ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ اْن کا کہنا ہے کہ مریم مالک ہیں جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ حسین مالک ہیں ٗفرق تو نہیں ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بہت فرق ہے ٗاگر مریم مالک ہیں تو ہم فنڈز کو بھی دیکھیں گے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ 1993 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلیٹس نہیں خرید سکتے تھے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ الزام یہ ہے کہ فلیٹس وزیراعظم نے خریدے اور درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیراعظم فنڈز بتائیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم پر الزام کیا ہے؟ تو کہہ دیتے ہیں کہ نیب کا سیکشن 9 اے 5 کرپشن کے حوالے سے ہی ہے۔سماعت کے دوران سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم اور برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) کی دستاویزات کھول دی گئیں جس میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے دو خطوط بھی شامل تھے۔

عدالت عظمیٰ نے کہاکہ ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا ٗدونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔عدالتی بینچ نے سلمان اکرم راجہ کی جانب سے پیش کی گئی بیشتر دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان دستاویزات کی یو اے ی کی وزارت انصاف نے پہلے ہی تردید کردی تھی۔بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ منی ٹریل کا جواب اگر بچے نہ دے سکے تو اس کے نتائج عوامی عہدہ رکھنے والے پر مرتب ہوں گے اور انہیں بھگتنا پڑیگا اور ہم ان کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ٹرسٹ ڈیڈ کے مصدقہ ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ دستاویزات تیار کسی اور دن اور تصدیق کسی اور دن کروائی گئیں، ان دستاویزات کی تصدیق ہفتے کے دن کروائی گئی لیکن اس دن تو برطانیہ میں چھٹی ہوتی ہے اور وہاں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا۔جسٹس عظمت سعید شیخ کہا کہ ہمارے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے ٗفی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے ٗاگر جعلی دستاویزات عدالت میں پیش ہوں تو کیا ہوتا ہے؟

اس دور ان عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو روسٹرم پر طلب کیا جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ رانا صاحب بتائیں اگر سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات دی جائیں تو کیا ہوتا ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ غلط دستاویزات پر مقدمہ درج ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا 7 سال قید ہو سکتی ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ راجہ صاحب ٗیہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا ٗہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا ،ہوکیسے گیا؟

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا، جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کریگا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تکنیکی بنیاد پر کیلبری فونٹ کا معاملہ درست نہیں جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ گورے تو چھینک مارتے ہیں تو رومال لگا لیتے ہیں، کیا کوئی قانونی فونٹ چوری کرے گا جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں،

ہر شخص کے آئینی اختیارات پر ہم بہت محتاط ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسا رکیا کہ 4 فروری 2006کو برطانیہ میں چھٹی تھی ٗآپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ممکن ہے غلطی ہوگئی ہو۔جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے دبئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے ٗ ایسے آنکھیں کیسے بند کرسکتے ہیں؟وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سینئر وکیل اکرم شیخ اس وقت کیس چلا رہے تھے،

متعلقہ فورم پر معاملہ جائے تو وضاحت بھی آئیگی۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ کسی کے بنیادی حقوق متاثر نہیں کرنا چاہتے ٗایسا کچھ نہیں کہیں گے جس سے کیس پر اثر پڑے ۔جسٹس عظمت سعیدشیخ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم سرکاری سطح پر آنے والی دستاویز پر یقین نہ کریں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارا موقف اس حوالے سے مزید تحقیقات کا ہے۔

وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یو اے ای حکام نے گلف ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا ٗبارہ ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی ٗجے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے ٗخط پر حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا ٗحسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یواے ای سے بھی حسین نواز کے دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی ۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں ٗمہر کی تصدیق نہ ہونے کے جو اثرات ہوں گے وہ عدالت زیر بحث لانا نہیں چاہتی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا، کچھ غلط فہمی ہوئی، غلطی ہوئی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کا کہنا تھا کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا ٗسب نے کہا وہ اس نوٹری مہر کو نہیں جانتے ٗاس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں، پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی؟

حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے ٗ کس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی؟ اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کیلئے گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منی ٹریل کے بارے میں ہمارے سوال اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ رقم کہاں سے آئی اس کا جواب نہ ادھر سے آتا ہے نہ ادھر سے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا ٗکوئی مصدقہ دستاویز لائیں ٗجے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں ٗ ان کی دستاویزات کا جواب دیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا موقف بتا دیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز پر جرح نہیں کی ٗجے آئی ٹی نے غلط سوال کیے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اب آپ نئے دستاویزات لے آئے ہیں، ان کے کیس پر اثرات دیکھیں گے ٗآپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے تو میری تمام دستاویزات کو جعلی قرار دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ یہ اسکریپ نہیں مشینری تھی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ جب مشینری دبئی سے ابو ظبی گئی تو اس کا ریکارڈ ہونا چاہیے جس پر سلمان اکرم نے موقف دیا کہ مشینری دبئی سے ابو ظبی کے راستے جدہ گئی۔

ججز نے کہا کہ اب کہہ رہے ہیں کہ مشینری ابو ظبی سے جدہ گئی ٗ آپ نے پہلے موقف اپنایا کہ مشینری دبئی سے جدہ گئی جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ یو اے ای کے اندر سامان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، دستاویزات جو آپ دکھا رہے ہیں پرائیویٹ ہیں ٗ دستاویزات دینی ہیں تو کسٹم حکام کو دیں، کسٹم کوڈز تو انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ ہو جاتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیکنگ میں تو کوڈز لکھے گئے ہیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسا رکیا کہ دستاویزات میں پیکنگ کی فہرست کہاں ہے؟ سلمان اکرم نے موقف اپنایا مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ان دستاویز کو رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں بتایا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ مل پر کوئی بقایاجات تھے جس کے جواب میں سلمان اکرم نے کہا کہ عزیزیہ مل پرجو بقایا جات تھے وہ ادا کر دیئے گئے تھے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ حماد بن جاسم کے انٹرویو کی ضرورت نہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کہہ چکی ہے کہ فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے ٗمزید تحقیقات کا کہہ کر آپ نے نئی بات کردی۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے۔سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں صرف انکوائری کا کہہ رہا ہوں۔سماعت کے دور ان جسٹس ا عجاز الاحسن نے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سے کہا کہ قطری کو پیش کرنا آپ کی ذمہ داری تھی ٗ وہ آپ کا اسٹار گواہ تھا لیکن آپ نے انہیں پیش نہیں کیا ٗ

آپ قطری سرمایہ کاری کی رسیدیں ہی دکھا دیتے ٗآپ نے نہ ٹرانزیکشن دکھائی اور نہ رسیدیں ٗہم کیسے مان لیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حمد بن جاسم نے خطوط میں رقم بھیجنے کا ایک لفظ نہیں لکھا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ شہزادے کو کہا آجائیں، اس نے کہامیں نہیں آتا ٗپاکستانی سفارتخانہ آنے کا کہا وہ ادھر بھی نہیں مانے، کیا ہم سارے اب دوحہ چلے جائیں۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ لاء فرم کا اکاؤنٹ دکھا دیں رقم کا فلو واضح ہوجاتا ہے، یہ افریقہ یا پانامہ نہیں انگلینڈ ہے تمام ریکارڈ مل جاتا ہے، ریکارڈ لادیں بات ختم ہوجاتی ہے، یہ وہ سوال ہیں جس کا جواب نہیں ہے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیخ حمد اس کا جواب دے سکتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری نے تو ویڈیو لنک پر جواب دینے سے بھی انکار کردیا، شاید اس کی تصویر اچھی نہیں آتی اس لیے ویڈیو لنک پر نہیں آئے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قطری نے کہا کہ میرے محل میں آؤ۔ جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس دیئے کہ پاکستان، پاکستانی سفارتخانہ اور ویڈیو لنک پر نہیں آنا پھر کیا رہ گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ارسلان افتخار کیس کے مطابق جے آئی ٹی کو قطر جانے کی ضرورت نہیں تھی، انھیں صرف سوال پوچھے جاسکتے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا قطری پاکستان آنے کو تیار ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیئرزحسین نواز کو 2006 میں دیئے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دبئی کمپنی کے فنڈز کہاں سے آئے تھے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج اس کمپنی کا وجود نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیر اعظم اسکے چیئرمین ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی بالکل چیئرمین ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جبل کمپنی سے 615 ہزار پاونڈز فلیگ شپ کمپنی کو بھیجے گئے، آپ کہہ رہے ہیں کہ اس کمپنی کے کوئی اثاثے نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے سوال کے جواب کی مہلت مانگ لی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرے دلائل (آج) جمعہ کو ختم ہو جائیں گے جس پر تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وہ جواب الجواب پر مختصر دلائل دیں گے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا ٗاگر کوئی آیا تو ٹھیک ورنہ رہنے دیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شاید شاہد حامد کیپٹن صفدر کے وکیل ہوں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر وکیل آیا تو سن لیں گے ورنہ فیصلہ دے دیں گے۔بعدازاں کیس کی سماعت (آج) جمعہ 21 جولائی تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…