اسلام آباد (آئی این پی) پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے کچھ حصوں کو مسترد کروانے کیلئے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اہم دستاویزات حاصل کر لی ہیں جن میں دبئی کی آحلی اسٹیل اور گلف اسٹیل کی فروخت کی دستاویزات شامل ہیں جبکہ آف شور کمپنیوں کی بینیفیشل اونر شپ سے متعلق بھی خطوط حاصل کئے گئے ہیں جن کے مطابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل اونر نہیں ہیں،
متحدہ عرب امارات سے حاصل کردہ دستاویزات تصدیق شدہ ہیں، حسین نواز کے وکیل یہ دستاویزات(آج) سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کو جمع کرائیں گے۔بدھ کو آئی این پی کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق شریف خاندان نے اہلی سٹیل کے 25فیصد شیئر 1980میں 12ملین درہم کے عوض فروخت کئے جبکہ گلف سٹیل کا معاہدہ اور اسکریپ کی فروخت کی رسیدیں بھی ان دستاویزات میں شامل ہیں یہ تمام دستاویزات یو اے ای کی وزارت خارجہ اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے تصدیق شدہ ہیں جبکہ دیگر دستاویزات میں وزیراعظم کے بچوں کی آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے انتظامی امور چلانے والی کمپنیوں کے خطوط شامل ہیں، مذکورہ دونوں کمپنیوں کا انتظامی امور منروا ہولڈنگ لمیٹڈ کے پاس تھا جو 2جون 2014 کو منروا سے جے پی سی اے کو منتقل ہوا، آف شور کمپنیوں کا انتظامی کنٹرول رکھنے والی منروا اور جے پی سی اے نے الگ الگ خطوط میں بتایا ہے کہ ان دونوں کمپنیوں کے بینیفیشل اونر حسین نواز ہیں ، مریم صفدر نے نیلسن اور نیسکول سے متعلق کبھی کوئی ہدایات دیں نہ ہی ہم نے ان سے براہ راست کوئی ہدایات لیں اوران کے بینیفیشل اونر حسین نواز ہیں۔ یہ تمام دستاویزات وزیراعظم کے بچوں حسین ، حسن اور مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا (آج) جمعرات کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کو جمع کرائیں گے۔
واضح رہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں گلف سٹیل سے متعلق جو فائنڈنگ دی ہیں اور سفارشات لکھی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ گلف سٹیل کی فروخت کے حوالے سے یو اے ای میں کوئی ریکارڈ نہیں اور اس حوالے سے جے آئی ٹی نے کچھ دستاویزی شواہد بھی اپنی رپورٹ کے ساتھ شامل کئے تھے جو یو اے ای کے متعلقہ محکمہ سے تصدیق کروائے گئے تھے
جبکہ حسین نواز کی آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول سے متعلق جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم صفدر ان کمپنیوں کی بینیفیشل اونر ہیں ، سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ کی طرف سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مذکورہ دونوں حصوں میں درج مواد کی نفی ہو جائے گی تاہم عدالت عظمیٰ ان دستاویزات سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گی۔