اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم کی دبئی میں ملازمت کے اہم شواہد نے نواز شریف کیلئے مشکلات میں اضافہ کر دیا، گھر بھیجے جانے کے امکانات مزید بڑھ گئے۔ ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کی جمع کرائی گئی حتمی رپورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کی دبئی میں
کیپٹیل ایف زیڈ ای میں6 اگست 2006 سے 20 اپریل 2014تک بطور چیئرمین بورڈ ملازمت کے حوالے سے اہم انکشافات کئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے متحدہ عرب امارات سے ایک مراسلہ شہاب سلطان میثمر نے جے آئی کو 4جولائی کو لکھا جو کہ جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں تھا۔ مراسلہ میں بتایا گیا ہے کہ 2فروری 2007کو نواز شریف کی ملازمت کی شرائط میں تبدیلی کرتے ہوئے تنخواہ میں نظر ثانی کی گئی جبکہ اس پر ان کے دستخط بھی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسی ملازمت کی وجہ سے وزیراعظم جولائی 2009سے جون 2015تک دبئی میں کام اور رہائش رکھنے کیلئے اقامہ لینے کے قابل ہوئے۔ جبکہ اس بات کی تصدیق وہاں کی متعلقہ اتھارٹی جبل علی فری زون نے کی ہے۔ وزیراعظم کی دبئی میں ملازمت کے حوالے سے تحریک انصاف کے وکیل چوہدری فیصل حسین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے 2013ء کے عام انتخابات میںکاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت یہ حقائق چھپائے تھے، اس لیے آرٹیکل 62 (1) (f)کے تحت نااہل ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ روزنامہ جنگ کے رپورٹر احمد نورانی کی آج کی ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم کی آف شور کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق جو پہلو اپنی رپورٹ میں اخذ کیا ہے
وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے 13سوالات کا حصہ نہیں تھا لیکن یہ وزیراعظم کے خلاف ایک بہت بڑا الزام ہے ۔ احمد نورانی اپنی رپورٹ میں وزیراعظم کی آف شور کمپنی اور اس سے تنخواہ وصولی کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ فری زون اسٹیبلشمنٹ کمپنیز کسی طرح بھی برٹش ورجن آئی لینڈ، جرسی یا دیگر آف شور جورسڈکشن میں قائم ہونے والی
آف شور کمپنیز کی طرح نہیں ہیں۔ اس طرح کی کمپنی پورے متحدہ امارات کے فری زون میں تشکیل دی جا سکتی ہے۔ یو اے ای کے فری زون میں سیکڑوں پاکستانی ایسی کمپنیوں کے مالک ہیں جو ہر گز آف شور کمپنیاں نہیں ہیں۔ لفظ’’آف شور‘‘واضح طور پر صورتحال میں سنسنی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور اس سے تعصب بھی جھلکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے
فری زون اسٹیبلشمنـت کے قوانین میں نہ تو چیئرمین کا کوئی ٹائٹل ہے اور نہ ہی کارپوریٹ قانون میں چیئرمین سے تعلق کا کوئی تصور موجود ہے۔ یہ قوانین ڈائون لوڈ کرنے کیلئے مفت دستیاب ہیں اور جے آئی ٹی کے ارکان کسی ایم ایل اے کے بـغیر اس کا جائزہ لے سکتے تھے۔ جہاں شیئرہولڈر مالک ہے اور مینجمنٹ کے لئے جمع کرائی گئی اتھارٹی کو مینیجر کہا جاتا ہے۔
وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز نے دی نیوز سے تصدیق کی نہ تو وزیراعظم نواز شریف کا اس کمپنی زیڈ ایف سی کیپیٹل میں ایک بھی شیئر ہےاور نہ ہی انہوں نے اس کمپنی سے کبھی تنخواہ وصول کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی کوئی شہادت نہیں ہے کہ وزیراعظم کا مذکورہ کمپنی میں کوئی شیئر ہے یا ان کے اکائونٹ میں تنخواہ منتقل کی گئی۔ حسین نواز نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ ’’اگر کبھی کوئی تنخواہ اس کمپنی سے وزیراعظم کے اکائونٹ میں منتقل ہوئی ہے تو میں خود وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کی حمایت کروں گا۔‘‘حسین نواز نے کہا کہ کمپنی شریف خاندان کی ملکیت ہے لیکن وزیراعظم نواز شریف کے پاس کبھی اس کے شیئرز نہیں تھے اور نہ ہی کبھی انہوں نے تنخواہ وصول کی اور انہیں کمپنی کا چیئرمین 2006میں متحدہ
عرب امارات کے دوران اور ویزوں میں سہولت حاصل کرنے کیلئے مقرر کیا گیا تھا اور کمپنی 2014میں ختم ہو گئی۔ جبل علی فری زون اتھارٹی کے خط میں تنخواہ وغیرہ کا ذکر کچھ اپائنٹ منٹ لیٹرز سے تھا جو معمول کے مسودے پر مشتمل تھا۔ شریف خاندان کا اصرار ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس کمپنی سے کبھی تنخواہ وصول نہیں کی اور جے آئی ٹی کے اس ضمن
میں ثبوت صرف ردی ہیں یا پھر کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں۔ شریف خاندان کے ذرائع کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کمپنی سے مالی فوائد حاصل نہیں کر رہا یا حصص یافتگان میں شامل نہیں ہے تو اس حقیقت کا اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی شخص کمپنی کا چیئرمین ہے