اسلام آباد( آن لائن ) بطور سربراہ تمام پہلوؤں کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہوں ، سربراہ جے آئی ٹی ،جے آئی ٹی کی رپورٹ 254 صفحات پر مشتمل ہے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے کہا ہے کہ سربراہ نامزد ہونا میرے لئے باعث عزت اور فخر کی بات ہے، 4 اعتماد کرنے اور جے آئی ٹی کاسربراہ بنانے پر سپریم کورٹ کا مشکور ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے اور رپورٹ جمع کرارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ممبران کی غیر معمولی صلاحیتیوں کے بغیر ہدف کا حصول ممکن نہیں تھاجے آئی ٹی کے ممبران نے انتہائی عزم اور غیر جانبداری سے اپنا کام مکمل کیابطور سربراہ تفتیش کے تمام پہلوؤں کی ذمہ داری میں اپنے سر لیتا ہوں، ساتھ دینے پر جے آئی ٹی ممبران اور تمام اسٹاف کا مشکور ہوں، جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی اراکین کو ملنے والی دھمکیاں سپریم کورٹ کے عمل میں ہیں ہوسکتا ہے جے آئی ٹی اراکین کو مستقبل میں بھی دھمکیاں ملیں اور نشانہ بنایا جائے جے آئی ٹی رپورٹ میں سپریم کورٹ نے گلف سٹیل ملز سے متعلق پانچ سوالات کی تحقیقات کا حکم دیاگلف سٹیل ملز کی تفتیش کیلیے طارق شفیع، نواز شریف، حسین و حسن نواز کا بیان لیا،حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق کیلیے متحدہ عرب امارات بھیجیں باہمی قانونی معاونت کے تحت متحدہ عرب امارات حکومت سے تصدیق کرائی،طارق شفیع، نواز شریف، مریم نواز، حسن اور حسین نواز گلف سٹیل کے شواہد نہیں دے سکے شریف خاندان کا شواہد جمع نہ کرانا نیب اور قانون شہادت آرڈیننس کے تحت جرم ہے،طارق شفیع کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی وکیل کے تیار کردہ تھے طارق شفیع نے نہ تو بیان خلفی پڑھے نہ ہی وہ اس کے متن سے اگاہ تھے طارق شفیع کی جمع کرائی گئی تمام دستاویزات جھوٹی اور حقائق کے منافی تھیں ۔
انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی اور زبانی بیان میں تضاد تھا بیان حلفی کے مطابق گلف سٹیل ملز میں میاں شریف اور محمد حسین پاٹنرز تھے زبانی بیان میں طارق شفیع نے کہا میاں شریف اکیلے مالک تھے دبئی سے جدہ سکریپ مشینری کا دعویٰ بھی مشکوک ہے متحدہ عرب امارات نے شریف خاندان کے 25 فیصد شیئر فروخت کرنے کی تصدیق نہیں کی اپارٹمنٹس خریدنے اور کاروبار کی تمام دستاویزات جعلی ثابت ہوئیں ۔
شریف خاندان منی ٹریل ثابت کرنے کیلئے ایک بھی دستاویز پیش نہیں کر سکا من گھڑت کہانی ثابت کرنے کے لئے دستاویزات کے بجائے گواہوں کے بیانات ہی کافی ہیں طارق شفیع کے مطابق 1978سے 1980تک گلف سٹیل کے معاملات شہباز شریف دیکھتے تھے شہباز شریف کے مطابق انہوں نے گلف سٹیل کے معاملات میں کردار ادا نہیں کیاگلف سٹیل کے فروخت کی دستاویزات پر طارق شفیع کے علاوہ کوئی اور دستخط کررہا تھا دبئی حکام نے 25 فیصد شئیر 12 ملین درہم کے فروخت ہونے کی تصدیق بھی نہیں کی
۔12ملین درہم وصول کرنے اور الثانی خاندان کو دینے کی کوئی بھی دستاویز نہیں دی گئی گلف سٹیل کی فروخت ،قطری خط ، طارق شفیع کا بیان ایک دوسرے سے متصادم ہیں انہوں نے کہا کہ فہد بن جاسم کو کاروبار کے لئے12 ملین درہم دینا فسانہ ہے حقیقت نہیں شریف خاندان نے گلف سٹیل کی فروخت کے وقت 14ملین درہم دینے تھے،۔
شریف خاندان گلف اسٹیل سے 12 ملین کی سرمایہ کاریی کیسیکر لیگواہوں کے بیانات کے مطابق طارق شفیع نے 12ملین درہم وصول کئے نہ ہی فہد جاسم کو دیئے،گلف سٹیل ملز کی فروخت اور فہد بن جاسم کے ساتھ کاروبار کا دعویٰ سپریم کو گمراہ کرنے کے لئے تھا رپورٹ کی دیگر صفحات میں وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے پیش کئے گئے دستاویزات میں عدم مطابقت پائی گئی مریم نواز نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں۔
مریم نواز لندن فلیٹس کی 2012 سے پہلے کی مالک ہیں لندن جائیدادوں کی ملکیت کے حوالے سے مریم نواز کی موجودہ حیثیت ریکارڈ کے بغیر چیک نہیں ہوسکتی مریم نواز کی جانب سے آف شور کمپنیوں کی پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور خودساختہ ہے، ٹرسٹ ڈیڈ عدالت کو گمراہ کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے اسلام آباد، جے آئی ٹی کو مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، مریم نواز اور حسین نواز نے جان بوجھ کر حقائق کو چھپایا۔
قطری شہزادے کی جانب سے شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی تفصیلات جعلی قرار پائی ہیں قطری دستاویزات شریف خاندان کی منی ٹریل کی خلاف پر کرنے کیلئے بنائی گئی یہ تسلیم شدہ ہے کہ لندن فلیٹس 1993 سے شریف خاندان کے زیراستعمال ہیں لندن فلیٹس پر قبضے کے حوالے سے نوازشریف اور انکے بچوں کے بیانات میں تضاد ہیحسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف بار بار تبدیل کرتے رہے
اسلام آباد، مریم نواز اور حسین نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کئیدونوں نے آف شور کمپنیوں کے بیرئر سرٹیفیکیٹس کو کبھی دیکھا ہی نہیں میاں شریف کے انتقال کے بعد شریف خاندان کے اثاثوں کی تقسیم ہوئیجائیداد کی تقسیم میں لندن فلیٹس یا بیرون ملک کسی جائیداد کا ذکر نہیں شریف فیملی کی خواتین خاندان کے مردوں کے حق میں اپنی وراثتی جائیداد کے حق سیدستبردار ہوئیں، لندن فلیٹ کے حوالے سے میاں شریف اور نوازشریف کا کوئی بھی وارث حسین نواز کے حق میں دستبردار نہیں ہوا،
۔90 کے اوائل میں لندن فلیٹ کی مالک نوازشریف بشمول شریف فیملی تھی نوازشریف نے لندن فلیٹ میں اپنی بینیفیشل ملکیت چھپانے کیلئے آف شور کمپنیوں اور اپنے بچوں کو استعمال کیا الثانی خاندان کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا، رپورٹالتوفیق کمپنی کو 8 ملین ڈالر الثانی خاندان کی جانب سے ادا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا سال 2000 میں حسن اور حسین نواز کے پاس انفرادی آمدن کے کوئی ذرائع نہیں تھیسال 2000 میں حسن اور حسین نواز اپنے خاندان کے زیرکفالت تھے حسین اور حسن نواز کے پاس لندن فلیٹ خریدنے کے کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے۔
لندن کے فلیٹس قطری خاندان کی جائیدادیں نہیں تھیں قطری سرمایہ کاری کے بدلے لندن فلیٹس کا ملنا محض افسانہ ہینوازشریف، حسین، حسن اور مریم نواز قطری خط کے مندرجات دستاویزی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی پہلا قطری خط سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیلندن فلیٹس کے سرٹیفیکیٹس قطر میں کس کے پاس تھے شواہد نہیں ملے شریف فیملی اور الثانی خاندان کے درمیان دیرپا تعلقات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی دبئی اسٹیل مل کے قیام اور فروخت کیلئے ٹھوس دستاویزات فراہم نہیں کئے گئے،
جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کا بیان حلفی مسترد کردیا طارق شفیع نے کبھی بھی گلف اسٹیل مل کی فروخت سے ملنے والے 12 ملین درہم وصول نہیں کئے شریف فیملی نے اپنے بیانات میں کبھی قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا،طارق شفیع کے پہلے بیان حلقی میں قطری سرمایہ کاری کا کوئی ذکر نہیں تھا پناما پیپرز منظرعام پر آنے کے بعد طارق شفیع اور حسین نواز لندن میں اکٹھے تھے،
جے آئی ٹی رپورٹ میں کیسز کی تفصیلات میں جے آئی ٹی کی نیب میں لندن فلیٹس کی خریداری سے متعلق ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش یہ معاملہ سترہ اٹھارہ سال سے نیب میں زیر التواء4 ہے۔سارا پنامہ کیس اسی کے گرد گھومتا ہے۔ موجودہ پنامہ کیس میں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی کارروائی سے ایسے نئے ٹھوس شواہد سامنے آئیہیں جس کی بنیاد پر یہ سفارش کی جاتی ہے کہ نیب کو حکم دیا جائے کہ کسی تاخیر کے بغیر ہی کیس کی تحقیقات مکمل کی جائیں
۔نیب میں 2000ء4 سے رائیونڈ اراضی خریدنے اور اس کیلئے اختیارات کا غلط استعمال کرکے رائیونڈ محل تک سڑک بنوانے سے متعلق دو معاملات زیر التواء4 ہیں۔اتنے عرصے میں اب تک تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہوئیں۔ اسے بھی کسی بھی تاخیر کے بغیر مکمل کی جائے۔شریف ٹرسٹ کو سامنے رکھ کر بے نامی جائیداد بنانے کا بھی الزام ہے۔ جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
نوازشریف کیخلاف ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات بھی مکمل کی جائیں۔بطور وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف کیخلاف ایل ڈی اے میں غیر قانونی پلاٹوں کی تحقیقات جلد مکمل کی جائیں۔ کیسز دوبارہ کھولنے کی سفارش کرتے ہوئے جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کہا ہے کہ نیب کو حکم دیا جائے کہ نوازشریف ، سیف الرحمان کیخلاف ہیلی کاپٹر خریداری کیس کا دوبارہ جائزہ لے اور سپریم کورٹ کے ذریعے ہائیکورٹ سے کیس دوبارہ کھولنے کیلئے رابطہ کیا جائے۔
کیونکہ خریداری میں قطری تعلق جعلی ہے۔شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولنے کی سفارش راؤنڈ اسٹیٹ میں اضافی مینشن بنانے کا ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش کی گئی ہے اس کے علاوہ ریکارڈنہ ہونے کے باعث ایک ریفرنس کا نیب نے ذکر نہیں کیا۔ وہ امریکا میں ٹرسٹ کے قیام سے متعلق ہے۔ اس کا حدییبہ پیپر ملز کیس سے بنیادی تعلق بنتا ہے اس لئے نیب کو حکم دیا جائے کہ اسے بھی دوبارہ کھولا جائے۔ایف آئی اے کو حدیبیہ انجیئرنگ کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔
حدیبیہ پیپرز ملز بھی دوبارہ کھولا جائے۔ایس ای سی پی میں چودھری شوگر ملز کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔ حدیبیہ پیپرز ملز کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولے جائیں موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق ایف آئی اے اور نیب کے سمیت 3 مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش کرتے ہوئے موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی کرتی ہے جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ ذرائع آمدن سے زائد اثاثے اور سفارشات میں وزیراعظم نوازشریف نے 84۔1983ء4 سے ریٹرنز فائل کرنے شروع کئے،وزیراعظم نے 15 جون کو بیان میں کہا کہ وہ اپنے والد کی کمپنیوں میں شیئر ہولڈر رہ چکے ہیں ۔
وزیراعظم کا موقف تھا کہ وہ 1985ء4 کے بعد کاروبار میں متحرک نہیں رہے مگر وزیراعظم نے 2010ء4 سے 2013ء4 کے درمیان چودھری شوگر ملز سے 24ملین تنخواہ لیچودھری شوگر ملز سے تنخواہ وصول کرنا وزیراعظم کے ٹیکس ریٹرنز میں بھی درج ہے وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کے درمیان بینک ٹرانزکشنز کا پتہ چلایا گیا ۔2009ء4 سے 2017ء4 تک حسین نواز نے اپنے والد کو 1.4 ارب روپے بھجوائیوزیراعظم نوازشریف نے 822 ملین روپے مریم نواز کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کئے۔
وزیراعظم نوازشریف نے 2013ء4 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں غلط بیانی کی وزیراعظم نواز شریف نے 45 ملین روپے کی ٹرانزکشن سے متعلق غلط بیانی کی وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ان کے والد 70ء4 کی دہائی میں اربوں کے اثاثوں کے مالک تھیوزیراعظم کا یہ بیان ان کے والدین کے ٹیکس ریٹرنز سے ثابت نہیں ہوسکا انہوں نے کہا اکہ مالی تفصیلات کا جائزہ لینے کے بعد اس نیتیجے پر پہنچے ہیں کہ وزیراعظم کے اثاثے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔
برطانیہ اور متحدہ عرب امارت سے تحفے کے طور پر 880 ملین پاکستان منتقل کئے گئیمدعا علیہان بیرون ملک سے آنے والے تحائف کے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہیوزیراعظم نے اثاثے بناکر بچوں کے نام منتقل کئے، مگر ان کے واضح ذرائع آمدن نہیں تھے نوازشریف کے مطابق اثاثے 70ء4 کی دہائی میں ان کے والد کے سرمایئے کی بنیاد پر بنینوازشریف کے اثاثوں کا مالی تجزیہ ان کے اس موقف کو درست ثابت نہیں کرتا۔
وزیراعظم کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے اثاثوں میں اضافہ ہواقاضی خاندان اور سعیداحمد کے نام بے نامی اکاؤنٹس سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی،رپورٹیہ بے نامی اکاؤنٹس قرضے لینے اور شریف خاندان کے اثاثوں بنانے کیلئے استعمال کئے گئے شریف خاندان کی بینک اسٹیمنٹس اور ویلتھ اسٹیمنٹس میں تضادات پائے گئے ہیں نوازشریف نے ویلتھ اسٹیمنٹ میں اتفاق شوگر ملز کے حصص ظاہر نہیں کئے نوازشریف 04۔2003ء4 کے درمیان اتفاق شوگر ملز کے 48 ہزار حصص کے مالک تھے۔
وزیراعظم نوازشریف 2009ء4 سے 2013ء4 تک اتفاق شوگر ملز کے 1000 شیئرز رکھتے تھیمیاں شریف نے بھی بادی النظر میں اپنے ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے،میاں شریف کی دولت میں 4.3 گنا اضافہ 93۔1992ء4 کے دوران ہوا،نوازشریف نے 1970ء4 میں فیکٹریاں قومیائے جانے کا بیان دیا، فیکٹریاں قومیائے جانے کے باجود شریف خاندان کی دولت میں واضح کمی نہیں ہوئی مریم نواز کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ۔ 90ء4 کی دہائی میں مریم نواز کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا،
اثاثوں کے تجزیئے اور ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق مریم نواز نے اثاثے چھپائے،ٹیکس چوری کیمریم نواز نے ذرائع آمدن کے بغیر نہ صرف اثاثے بنائے بلکہ کروڑوں روپے قرض بھی دیا، مریم نواز نے 2008ء4 میں کروڑوں روپے کے تحفے وصول کئے مریم نواز نے تحفے میں ملنے والی رقم زرعی زمین خریدنے کیلئے استعمال کی،زرعی آمدن چونکہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہے اس لئے فنڈز کو قانونی بنانے کیلئے استعمال کیا گیا بادی النظر میں مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے،۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں حسین نواز کے اثاثوں کے حوالے سے کہا گیا کہ حسین نواز کے اثاثے 1990ء4 کی دہائی میں غیر معمولی طور پر بڑھے متعدد مرتبہ کہنے کے باجود حسین نواز ذرائع آمدن کی کوئی تفصیل نہ دے سکے شریف خاندان 1990ء4 کی دہائی میں اقتدار کے ایوانوں میں تھاجے آئی ٹی کو یقین یہ ہے کہ شریف خاندان کے اثاثوں میں اضافہ غیر قانونی طور سے ہواحسین نواز کو شریف خاندان کی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا،
اسی طرح دوسری جانب حسن نواز کے اثاثوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ حسن نواز کے اثاثوں میں بھی 90ء4 کی دہائی میں اضافہ ہواحسن نواز کو بھی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا،حسن نواز کی کمپنیاں خسارے میں تھیں مگر ان کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدی گئیں خسارے کی کمپنیوں سے پاکستان میں شریف خاندان کی کمپنیوں کو قرض دیئے گئے،حسن نواز نے بھی متعدد مواقع کے باوجود اپنے ذرائع آمدن کا کوئی ثبوت دیا،بادی النظر میں حسن نواز کے اثاثے بھی ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اسحاق ڈار کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسحاق ڈار نے بادی النظر میں 1981ء4 سے 2002ء4 تک ٹیکس چوری کی اسحاق ڈار نے 1981ء4 سے 2002ء4 تک انکم ٹیکس ریٹرنز ہی فائل نہیں کئے اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 09۔2008ء4 میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر انھوں نے ذرائع آمدن نہیں بتائیاسحاق ڈار کی مالی تفصیلات اور ایف بی آر ریکارڈ میں تضاد پایا گیا اسحاق ڈار نے اپنے ہی ادارے کو 169 ملین روپے خیرات میں دیئے،
اسحاق ڈار نے چندے کی رقم اپنی رسائی میں رکھی اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ ذاتی خرچہ ظاہر کیااسحاق ڈار اتنی بڑی رقم پر ٹیکس استثنیٰ لیکر ٹیکس چوری کی،اسحاق ڈار کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں نوازشریف ، مریم، حسین اور حسن کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں شریف خاندان کی پاکستانی کمپنیوں کی مالی حالت ان کی جائیداد سے مطابقت نہیں رکھتیشریف خاندان کی ظاہر کی گئیں جائیداد اور ذرائع آمدن میں عدم مساوات ہے،
سعودی عرب،برطانیہ اوریو آئی اے کی کمپنیوں سے نوازشریف اور حسین کو رقم کی غیر قانونی منتقلی ہوئیجے آئی ٹی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شریف خاندان کی 3مزید آف شورکمپنیز ہے الاناسروسز،لینکن ایس اے اورہلٹن انٹرنیشنل سروسز،اس سے قبل نیلسن، نیسکول اورکومبرگروپ نامی کمپنیزمنظرعام پر ئی تھیں آف شور کمپنیزبرطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبارسے منسلک ہیں پیسہ برطانیہ،سعودی عرب،یواے ای اور پاکستان کی کمپنیوں کو بھی ملتا رہا۔
نوازشریف اور حسین نواز یہ فنڈز بطورتحفہ اور قرض وصول کرتے رہے تحفے اور قرض کی وجوہات سے جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کیا جاسکا آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کے ذریعے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں بنائی گئیں ٹی وزیراعظم، مریم، حسین اور حسن کیخلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کی سفارش کرتی ہے،شق 9 کی ذیلی شق اے پانچ کے تحت عوامی عہدہ رکھنے والے یا دوسرے شخص ، یا اس کے زیر کفالت افراد کا ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنا جرم ہے،
جے آئی ٹی رپورٹ میں قانون شہادت آرڈر 1984ء4 کے آرٹیکل 122 اور 117 کا حوالہ بھی دیا قانون شہادت آرڈر کے تحت بار ثبوت ملزم پر ہوتا ہیتمام مدعا علیہان ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے،شریف خاندان اپنے اثاثوں اور ذرائع آمدنبتانے میں ناکام رہا۔