اسلام آباد(جاوید چوہدری)وزیراعظم 15 جون کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کیلئے جوڈیشل اکیڈمی جائیں گے‘ حکومت نے وزیراعظم کی تشریف آوری سے قبل جوڈیشل اکیڈمی کی تزئین و آرائش شروع کر دی ہے‘ اکیڈمی کے دائیں بائیں موجود گھاس اور سارا جھاڑ جھنکار صاف کر دیا گیا ہے‘ درختوں کی تراش خراش بھی ہو چکی ہے‘ ٹوٹی ہوئی سڑک کی مرمت بھی کی جا چکی ہے اور جہاں جہاں پینٹ‘ سفیدی اور صفائی
کی ضرورت تھی یہ سب کچھ وہاں بھی ہو چکا ہے‘ آپ ایفی شینسی کا اندازہ لگائیے‘ یہ جوڈیشل اکیڈمی 1988ء میں بنی‘ آج تک کسی نے اس کی گھاس تک کاٹنا مناسب نہیں سمجھا لیکن جوں ہی وزیراعظم نے وہاں جانے کا اعلان کیا پوری حکومت ایکٹو ہو گئی یہاں تک کہ راولپنڈی کے میئر سردار نسیم راولپنڈی کی ٹوٹی پھوٹی گلیاں‘ راولپنڈی کا نالہ لئی اور راولپنڈی کی بے ہنگم تجاوزات راولپنڈی میں چھوڑ کر آج اسلام آباد تشریف لے آئے اور یہ اپنی آنکھوں سے صفائی ستھرائی کا معائنہ کرتے رہے۔ہماری حکومتیں صرف اس وقت کیوں ایکٹو ہوتی ہیں جب وزیراعظم کسی جگہ قدم رنجہ فرمانے لگتے ہیں‘ عام حالات میں حکومتیں کہاں چلی جاتی ہیں اور اگر وزیراعظم کے قدم اتنے ہی مقدس ہیں تو پھر جے آئی ٹی کو اگلا اجلاس اڈیالہ جیل اور پمز ہسپتال میں رکھنا چاہیے شایداس سےان دونوں اداروں کا مقدر بھی بدل جائے‘ قیدیوں اور مریضوں کے حالات بھی ٹھیک ہو جائیں چنانچہ آپ وزیراعظم کو ایک بار جیل اور ایک بار پمز ضرور لے جائیں‘ یہ دونوں مقامات بھی اپ گریڈ ہونا چاہتے ہیں‘ خواتین وحضرات حکومت کی طرف سے جے آئی ٹی اور عمران خان پر حملوں میں مزید تیزی آ گئی ہے ۔وزیراعظم نے آج ایک اچھا قدم اٹھایا‘ انہوں نے کارکنوں کو 15 جون کو جوڈیشل اکیڈمی آنے سے روک دیا‘ یہ اچھا فیصلہ ہے لیکن سوال یہ ہے وزیراعظم ایک طرف
کارکنوں کو روک رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے نمائندے طلال چودھری‘ دانیال عزیز اور حنیف عباسی جے آئی ٹی پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں‘ وزیراعظم انہیں کیوں نہیں روکتے‘ یہ تضاد کیوں ہے؟