اسلام آباد(جاوید چوہدری )پاکستان جس دن معرض وجود میں آیا پاکستانی قوم اس دن سے ایک ایسےملک کا راستہ دیکھ رہی ہے جس میں قانون اور قانون نافذ کرنے والےاداروں کی نظر میں وزیراعظم اور عام شخص برابر ہو‘ جس میں سائیکل چور اور خزانہ چور دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو‘ یوں محسوس ہوتا ہے وہ پاکستان اب زیادہ دور نہیں ہے‘ 15 جون کو وزیراعظم خود چل کراس جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے
جو سپریم کورٹ نے شریف فیملی کے خلاف تشکیل دی‘ وزیراعظم نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا فیصلہ کر کے بڑے دل کا مظاہرہ کیا‘ ہم اس بڑے دل پر وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں‘ وزیراعظم کے پیش ہونے سے ملک میں ایک نئی مثال قائم ہو گی‘ اوراس کے بعد بااثر لوگوں کیلئے احتساب سے بچنا آسان نہیں ہو گا‘ اس مثال کیلئے جہاں وزیراعظم خراج تحسین کے لائق ہیں وہاں عمران خان کی کوششوں کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی‘ یہ عمران خان کی دہائیوں پر مشتمل کوششیں ہیں جن کے نتیجے میں آج وزیراعظم اپنا حساب دینے کیلئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہے ہیں‘ ہم عمران خان کے کارکنوں کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔عمران خان نے آج مطالبہ کیا میاں نواز شریف کو جے آئی ٹی کے سامنے جانے سے قبل اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ عمران خان کا مطالبہ ایک لحاظ سے درست دکھائی دیتا ہے‘کیوں؟ کیونکہ ماضی میں جب یوسف رضا گیلانی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا تو میاں نواز شریف نے گیلانی صاحب کو اسی قسم کا مشورہ دیا تھا۔ میاں صاحب کو آج اپنے الفاظ کا پاس کرتے ہوئے ایک روشن مثال بن جانا چاہیے‘ کیا وزیراعظم یہ مثال بھی قائم کریں گےجبکہ آج جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ حسین نواز کی تصویر جے آئی ٹی کے اندر سے لیک ہوئی تھی اور ذمہ دار کواس کے ادارے میں واپس بھجوا دیا گیا ہے‘
وہ کون تھا‘ یہ نہیں بتایا گیا‘ کیوں؟ جے آئی ٹی نے الزام لگایا‘ ریاستی ادارے بروقت ریکارڈ فراہم نہیں کر رہے ہیں لہٰذا جے آئی ٹی ساٹھ دنوں میں کام مکمل نہیں کر سکے گی‘ ادارے تعاون کیوں نہیں کر رہے اور اگر تحقیقات ساٹھ دنوں میں مکمل نہ ہوئیں تو کیا ہو گا‘ کیا سپریم کورٹ تحقیقات مکمل کرانے کیلئے وزیراعظم کے اختیارات سلب کر نے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔