ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’پاک افغان کشیدگی‘‘ اگرپاک فوج یہ کام نہ کرتی تو ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا، کیاپاکستان کوچمن پرافغان حملے کا پہلے سے علم تھا؟۔۔دھماکہ خیز انکشافات

datetime 6  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)انٹیلی جنس ایجنسیاں پہلے سے جانتی تھیں کہ افغانستان کی جانب سے گڑ بڑ ہونے والی ہے، پاک فوج کے اعلیٰ سطحی وفد ، آئی ایس چیف اور پاکستانی پارلیمانی وفد کے دورہ افغانستان کا جواب چمن کے سرحدی دیہات پر مردم شماری ٹیم پر حملہ کر کے دیا گیا، افغان کسے کے نہیں ہو سکتے، ان کی زندگی جنگ سے وابستہ ہو چکی،

سینئر کالم نگار و تجزیہ نگار ہارون الرشید کا نجی ٹی وی پروگرام میں انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ افغان اب کسے نہیں رہے، افغانستان قدیم قبائلی معاشرہ بن چکا نہ وہاں جدید سول سروس کا نـظام ہے اور نہ ہی جدید فوج ہے ۔ جنگ سے اب ان کا مفاد وابستہ ہو چکا ہے، ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں گزشتہ 38سال سے جنگ جاری ہے اور جو چیز 40سال سے جو چیز طرز زندگی رہے تو پھر لوگ اسی سے اپنے مفادات وابستہ کر لیتے ہیں، زندگی پھر اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتا اگر وہاں امن آگیا تو پاکستان اور افغانستان ایک ہو جائیں گے کیونکہ امن ہی ہے جو مزید امن کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ بھارت کا افغانستان میں انٹرسٹ پاکستان کے خلاف اس کی سرزمین کو استعمال کرنے سے وابستہ ہے اور اسی مقصد کیلئے وہ وہاں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ میں پوری ذمہ داری سے یہ بات بتا رہا ہوں کہ ہماری انٹیلی جنس کو بہت دن پہلے سے اطلاع تھی کہ کوئی گڑ بـڑ ہونے والی ہے ۔ پاک فوج چمن میں افغان فورسز کے حملے سے قبل انـٹیلی جنس معلومات کی بنا پر پہلے سے تیار تھی ورنہ بہت زیادہ نقصان ہو سکتا تھا،

پاک فوج کی جوابی کارروائی میں افغان چوکیاں تباہ ہونے سے افغان فورسز پسپا ہونے پر مجبور ہوئی۔ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ پرانی تلخیوں کو بھلا کر تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان کے ساتھ سائنسی طرز سوچ کے تحت تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کیلئے ہی اس سے قبل بھی آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر

چارج لینے سے قبل افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ آئی ایس آئی کے موجودہ چیف نے چارج لینے کے بعد انہی دنوں افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ آئی ایس آئی چیف کو دورہ افغانستان کے دوران افغان حکام نے مجرمان حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے افغان صدر کے دورہ پاکستان کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان کے ساتھ دبائو کی پالیسی رکھے مگر امن و امان کی خواہش ہی آخری خواہش ہونی چاہئے تاہم اس کیلئے دبائو کی ہی پالیسی کارگر ثابت ہو سکتی

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…