معروف کالم نگار سرفراز سید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کو سزائے موت کے اعلان سے اچانک پاکستان اور بھارت میں ڈرامائی قسم کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر پر طوفان اٹھادیا ہے۔ بھارتی حکومت نے شدید ردعمل کااظہار کیا ہے اورکل بھوشن کو اپنا جاسوس ماننے سے ہی انکار کردیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں جرمنی کے سفیر گنٹر لو لاک کے مطابق کل بھوشن کو پاکستان میں گرفتار ہی نہیں کیاگیا بلکہ
اسے ایران میں طالبان نے پکڑ کر بھاری معاوضے پر پاکستان کو فروخت کردیا تھا! اس بارے فی الحال جرمنی کے سفارت خانے کی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کل بھوشن کو سزائے موت کی مخالفت کردی ہے۔ بلاول کامؤقف ہے کہ پیپلزپارٹی ایک پالیسی کے طورپر کسی بھی شخص کو سزائے موت کے خلاف ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل متعدد بھارتی جاسوس پکڑے گئے ان میں سے ایک جاسوس کشمیرا سنگھ خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ اسے1974ء میں پاکستانی ایجنسیوں نے اسلام آباد، پشاور روڈ پر بم دھماکے کے الزام میں پکڑا۔ فوجی عدالت نے اسے سزائے موت سنادی۔ وہ 35 برس جیل میں رہا۔ وہ ابراہیم کے نام سے تخریبی کارروائیاں کرتا تھا۔ اس کی سزائے موت کے خلاف تمام اپیلیں اورصدر سے معافی کی اپیلیں بھی خارج ہوگئیں تاہم اسے پھانسی دینے کا معاملہ ٹالا جاتا رہا۔35 برس کے بعد صدر جنرل پرویزمشرف نے4مارچ2008ء کو ایک صدارتی معافی کے ذریعے اسے رہا کردیا۔ کشمیرا سنگھ مسلسل اپنے خلاف الزامات سے انکارکرتا رہا۔ اس نے دکھاوے کے لیے اسلام قبول کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اسے بڑی شان و شوکت ، مٹھائی اورمتعدد تحائف کے ساتھ واہگہ بارڈر پر اس کے رشتے داروں کے حوالے کیاگیا۔ اس کا گاؤں واہگہ بارڈر کے پار نزدیک ہی ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں اس کی آمد پر جشن منایاگیا۔ اس میں اس نے اعلان
کیا کہ اس نے واقعی اسلام آباد پشاور روڈ پر بم دھماکہ کیاتھاجس سے متعددافراد جاں بحق ہوگئے تھے۔کشمیراسنگھ نے یہ بھی کہا کہ اس نے محض جان بچانے کے لیے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں جاسوسی اورتخریبی کارروائیوں کے الزام میںایک دوسرے بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کو بھی 1980ء کے عشرہ میں لاہور اور فیصل آباد میں بم دھماکوں کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی۔ سپریم کورٹ نے
سزا بحال رکھی مگر1990ء میں صدر غلام اسحاق نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔سربجیت سنگھ بھی اپنے خلاف الزامات سے انکارکرتا رہا ۔اس کی بہن کو بھارت سے آکرلاہور جیل میں ملاقات کی اجازت بھی دی گئی۔ اس کی بھی رہائی کا امکان پیدا ہوگیا مگر،26مئی2013ء کولاہور جیل میں دوسرے قیدیوں نے اچانک اس پر اینٹوں سے حملہ کرے اسے ہلاک کردیا۔ سربجیت سنگھ کے اس انجام کے جواب میں جموں جیل
میں قید ایک پاکستانی قیدی ثناء اللہ پر حملہ کیاگیا جس سے وہ جاںبحق ہوگیا۔ پاکستان میں متعدد دوسرے بھارتی جاسوس قید کی کی مختلف سزائیں کاٹ کر واپس بھارت چلے گئے۔ ان میں رام راج، گرنجش رام، دویندر اور دوسرے جاسوس شامل تھے۔ ٭جیسا کہ پہلے کہاگیا ہے، کل بھوشن یادیو کی سزائے موت کے اعلان پر بھارت اور پاکستان کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں۔ اس کا فوری اثر یہ ہوا ہے کہ بھارت سے رہا ہونے
والے پاکستانی ماہی گیروں کی پاکستان واپسی روک دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ تین خواتین کی واپسی بھی مشکوک ہو گئی ہے جنہیں امرتسر جیل سے رہا کرنے کا اعلان آچکا تھا۔ پاکستان کی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نے کل بھوشن کے بارے میں بھارت کو تمام معلومات فراہم کی تھیں مگر بھارت انکارکررہا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ خود پاکستان میں پیپلزپارٹی کے سوا بیشتر سیاسی پارٹیوں’ رہنماؤں اور جنرل(ر) پرویز مشرف سمیت سابق
عسکری عہدیداروں نے کل بھوشن کی سزاکودرست قراردیاہے۔ اس سلسلے میں قانونی ماہرین کی رائے بھی اہم ہے کہ کل بھوشن قانونی طورپر آرمی چیف آف سٹاف اور سپریم کورٹ سے اپیل کرسکتا ہے۔ سزا معاف یا تبدیل نہ ہوتو صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے۔ کل بھوشن کے خلاف محض چند افراد کی ہلاکت کا نہیں بلکہ ملک میں وسیع پیمانہ پر بغاوت اور ملک کو توڑنے کی سازش کا سنگین الزام ہے۔